آرزو کا کھیل سارا
میری ذات کے حصّے اب ایسے بھی خل گئے
کُچھ اپنوں سے کُچھ خُود سے ہی کُچل گئے
خاک کی ہستی میں بس ہے خاک ہی باقی
جو نہ ہو سکے خاک تو خاک میں مَل گئے
ہمیں تو میسّر نہیں کہ دل کو بہلا سکیں
وہ کیسے دل ہے جو منٹوں میں بہل گئے؟
اِک نگاہِ دل فریب ہی سمائی ہے نظر میں
مجال ہے جو کسی اور پہ ہم مچل گئے!
تھا یہ آرزو کا کھیل سارا وگرنہ اے ساحل
مُحبّت بھی کوئی آگ تھی؟ جس میں جل گئے
© Ahmed Sahil
کُچھ اپنوں سے کُچھ خُود سے ہی کُچل گئے
خاک کی ہستی میں بس ہے خاک ہی باقی
جو نہ ہو سکے خاک تو خاک میں مَل گئے
ہمیں تو میسّر نہیں کہ دل کو بہلا سکیں
وہ کیسے دل ہے جو منٹوں میں بہل گئے؟
اِک نگاہِ دل فریب ہی سمائی ہے نظر میں
مجال ہے جو کسی اور پہ ہم مچل گئے!
تھا یہ آرزو کا کھیل سارا وگرنہ اے ساحل
مُحبّت بھی کوئی آگ تھی؟ جس میں جل گئے
© Ahmed Sahil