...

2 views

رشتوں کا زہر


زین رات کے ٹائم خالی سڑک پر گاڑی دوڑا رہا تھا موسم شدید سرد تھا لیکن اس کے اندر جو غم وغصے کی آگ لگی ہوئی تھی اور وہ اس شدید سرد موسم سے بھی زیادہ تھی۔سڑک دور دور تک سنسان تھی۔
"آ خر کب یہ یادیں میرا پیچھا چھوڑے گی "
اس نے زور سے سٹئرنگ پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے سوچا۔اس چہرے پر اضطراب اور بے چینی صاف دیکھی سکتی تھی۔ اس نے اک ویرانے میں سائڈ پر گاڑی روکی ارو گاڑی کا ڈور کھول کر باہر نکل آ یا۔
پاس ہی اک کیکر کا درخت تھا اس کے گاڑی کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی اس پر پڑ رہی تھی
اس نے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے نظر کیکر کے درخت پر جما دی ۔
اور پاس آ کر اک شاخ پکڑ کر سوچنے لگا کہ اس کے واقعے کے بعد اس کی زندگی بھی اس کیکر کے درخت کی طرح ہو گئی ۔
اس کے آنکھوں کے سامنے وہ سارے مناظر فلم کی طرح گھومنے لگے ۔
اس وقت وہ دس سال کے تھے جب اک رات پولیس والے اس کے والد کو گرفتار کر کے لے گئے ۔ اور وہ سہم کر اپنے والدہ کے ٹانگوں کے گر د ہاتھ باندھے کھڑا تھا اس وقت اس نے اپنی ماں کو تڑپ کر روتے ہوئے دیکھا تھا
وہ رات تو گزر گئ مگر اس کا چھوٹا سا دل اس وقت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا جب اس کے کزن نے اس کے ساتھ کھلنے سے انکار کر دیا کہ ان کے بابا قاتل ہیں ۔
اس کی ماں نے کورٹ کچہری کے دھکے کھائے مگر اپنے طوط چشم بن چکھے تھے
بابا خود وکیل ہو کر بھی بے بس تھے
اور پھر اک کہتے ہیں نا کہ اپنوں سے غیر اچھے ہیں
اور پھر انکل باسط نے جو بابا کے جگری دوست تھے دوستی کا حق ادا کر دیا ۔
بابا پر قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔جو ان کے اک طاقتور دشمن کا انتقام تھا۔
مگر انکل باسط کے ذہانت کے آگے دشمن کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بابا رہا ہو کر آ گئے تھے مگر اس عرصے کی اذیتوں نے زین کے ذہن پر برا اثر ڈالا تھا
آ ج اتنے عرصے کے بعد بھی وہ ماضی کو نہ بلا سکا وہ خود کو اذیت دیتا ہے وہ اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا ہے مگر بابا اور ماما کی محبت اسے ایسا کرنے سے باز رکھتا ہے۔
وہ پھر سے گاڑی میں آکر بیٹھ جاتا ہے وہ تیز ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
ا چانک اک سایہ اس کے گاڑی سے ٹکرایا ۔
زور سے بریک لگانے سے گاڑی کے ٹائر چرچرائے
جب اس نے گاڑی سے باہر آ کر دیکھا تو وہ اک لڑکی تھی اور سڑک پر گر کر بے ہوش ہو گئی تھی ۔اس نے دیکھا اس کے اک ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ دبا ہوا تھا اس نے جلدی سے اسے اٹھایا اور گاڑی میں ڈال کر قریبی ہسپتال لے گئے سر پر معمولی سی چوٹ لگی تھی تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آئیں۔
زین نے اس سے ایڈریس پوچھا تا کہ گھر چھوڑ آئے مگر وہ گھر نام پر رو پڑی ۔
اسنے زین کو کہا اس کا کوئی گھر نہیں جب اس امی اور ابو کا اک کار آکسیڈنٹ میں انتقال ہو تو وہ تایا ابو کے گھر رہنے پر مجبور ہوئی مگر اس کے کزن کا اس پر نیت خراب ہوئی۔
اس زندگی کا سرمایہ لٹ گیا اک رات
جب اس نے تائی سے اس بات کی شکایت کی تو اس نے اسے پر بد کاری کا الزام لگایا اور گھر سے باہر نکال دیا وہ بہت روئی مگر کسی نے نہ سنی
اور پھر اس نے انتقام لینے کے لیے اک جرائم پیشہ سے تعلق بنا لیا جہاں وہ نشے کی عادی ہو چکی تھی اور یہ سب صرف انتقامی طور پر تھا مگر اس کے اندر وہ معصوم لڑکی اب تھک چکی تھی اور جان بوجھ کر زین کے گاڑی کے سامنے آ ئی
زین اس کہانی سن کر سوچنے لگا کہ یہ بھی اپنوں کی بے حسی کی ستائی ہوئی تھی اس نےدل اک اہم فیصلہ کر لیا اور اس کو اپنے فیصلے پر اب عمل کرنا تھا
از قلم: صبا نور
© Saba writes