...

3 views

خلشِ
رات کے اس آخری پہر میں کمرے میں اکیلی تھی اور مجھے پتہ تھا میرا برا وقت قریب آ رہا ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میری عزت پر یوں بن آئے گی۔ میں ایک سادہ اور اپنی روٹین میں خوش رہنے والی لڑکی تھی لیکن حالات مجھے اس موڑ پر لے آئیں گے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔کمرے کی دیواروں پر لگی پینٹنگ جیسے مجھ پر قہقہے لگا رہے تھے ۔اور ان قہقہوں کی آوازیں پل پل بلند ہوتی جا رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے مجھے ان بے جان تصویروں سے نفرت محسوس ہوئی اور میرے ذہن میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وہ حدیث گونجی
"حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ تصویر بناتے ہیں ان کو قیامت کے دن عذاب ہوگا, ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔''
پینٹنگ میرا جنون تھا اور اس جنون نے اس وقت جنم لیا جب میں چھوٹی سی تھی ۔
اک صبح میں نے دیکھا کہ صحن میں بنی کیاری میں اک سرخ گلاب کا پھول لگا ہو ہے میں نے سوچا کہ اس بھورے رنگ کی مٹی سے کیسے سرخ رنگ کا پھول نکلا۔اور یہی تجسس مجھے اس رنگوں کی دنیا میں لے آیا۔

اس کے بعد میں رنگوں سے درخت پہاڑ پھول پرندے عرض انسانوں کے چہرے بھی تحلیق کرنے لگی اور اکثر تو کئی دن تک اپنےرنگوں کی دنیا میں اتنی کھو جاتی کہ اپنا ہوش نہیں ہوتا
اور امی مجھے زبردستی کمرے سے باہر نکالتی اور اپنے پاس بٹھاتی تیل کا کٹورا اٹھا کر سر میں تیل لگانا شروع کر دیتی تھی۔ بالوں میں اپنے کھردرے ہاتھوں سے زور زور سے مالش کرتی اور ساتھ ساتھ لیکچرر بھی جاری،
"حد ہوتی ہے لاپرواہی کی"
مصنوعی غصے سے کہتے ہوئے،
"زینب کبھی اپنے بالوں کا بھی خیال رکھا کرو کیسے جاڑیو کی طرح ہو گئے تیل کے بغیر"
اور میں دل ہی دل میں اپنے نرم بالوں کا امی کے ہاتھوں حشر نشر دیکھ کر کھڑتی رہتی۔
کیونکہ امی کے سامنے مجھ مظلوم کی کہاں چلنے والی
خدا خدا کر کے آدھ گھنٹے بعد امی کو میرے بالوں پر رحم آیا اور چٹیا بنانے لگی اور یہ اک الگ معرکہ ہوتا تھا
امی بالوں کا اتنا کس کس کے چٹیا بناتی تھی کہ بھوئیں اوپر کی طرف اٹھ جاتی تھی اور پھر سارا دن شیشے میں دیکھنے سے گریز کرتی مبادا اپنی جن جیسے اوپر کی جانب اٹھے ہوئے آئبرو دیکھ ڈر نہ جاؤں۔
میں اکثر پینٹنگ کرنے کے لیے قریبی پارک میں جاتی تھی کیونکہ اک تو وہاں سکون ہوتا تھا اور دوسرا وہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہوتی تھی۔کبھی کوئی پرندہ چونچ سے اپنے سینے کو سہلاتی تو میں اس کی یہ ادا اپنے کینوس پر رنگوں میں ہمیشہ کے لیے قید کر لیتی تھی تو کھبی شام کا غروب ہوتا ہوا نارنجی سورج کی کینوس کی زینت بن جاتا
اک دن اک 12 سال کی بچی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور غور سے میرے پینٹنگ دیکھنے لگی
"آ پی آپ یہ تصویریں کیوں بناتی ہے"
میں نے بچی کی طرف دیکھا اور مسکرائی
"کیونکہ مجھے سکون ملتا ہے، یہی اک واحد ذریعہ ہے جس سے انسان اپنے اندر کے جذبات کو باہر نکالتا ہے "

کیا یہ یوز لیس کام نہیں ہے اس کا کوئی فایدہ بھی ہے کیا اس سائنسی دور میں اس کا کوئی رول ہے ۔
میں اسے دیکھ کر مسکرا کر رہ گئی
"ہاں اگر کوئی سمجھے تو یہ بلکل یوز لیس نہیں ہے یہ اک آرٹ ہے اور زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے جبکہ اب اس میں کافی جدت آ چکی ہے"
میں نے برش سائڈ پر رکھا
"جہاں تک سائنس کی بات ہے تو
آج سے پانچ صدیاں قبل اک لیونارڈو نچی نامی اک سائنس دان جو مشہور پینٹر بھی تھے نے روبوٹ موٹر کار اور ہیلی کاپٹر سمیت بہت سی اشیاء کی ابتدائی اشکال بنا کر نوع انسانی پر عظیم احسان کیا"
اتنے میں اس بچی کو اس کی والدہ نے آواز دی اور وہ چلی گی۔
اک شام جب پارک سنسان سا پڑا تھا میں پینٹنگ کے آخری مراحل میں تھی میں جب بھی کوئی پینٹنگ بناتی تو نظم کی صورت میں اسے الفاظ میں بھی ڈھال لیتی تھی اور یہ نظم میں پینٹنگ کے اک سائڈ پر لکھ لیتی تھی۔ اس وقت دریائے سندھ میرے کینوس پر جلو افروز تھا۔میں نے ساتھ ہی اپنی یہ نظم بھی تحریر کی

اے عظیم دریائےسندھ
کتنی محبت کی کہانیاں
تو نے سینے میں چھپا رکھی ہیں
کتنے راز محبت کے
اس گیلی ریت میں دفن ہے
اے عظیم دریائےسندھ
اے محرمِ راز محبت کے
اک سوال ہے اک التجاء ہے
کہ کیا تم میری محبت کو بھی
اپنے اندر چھپا لوگے
مجھے زمانے کے بے رحم
رسم ورواج سے بچا لو گے
اے عظیم دریائےسندھ
رکھ لو میری محبت بھی اپنے سینے میں
دفن کر اسے ریت میں دبی کسی سفینے میں
اے عظیم دریائےسندھ
میری محبت امانت ہے
میری محبت امانت ہے
صباء نور۔
"واہ"
چانک پیچھے سے اک آواز نے مجھے چونکا دیا.
میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ اک امیر زادہ تھا اور میری پینٹنگ کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہا تھا
اور مجھے اپنی تعریف سن کر خوش ہو گئی کیونکہ کہ پہلی بار کسی نے میری تعریف کی تھی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ تعریف مجھے کتنا مہنگا پڑنے والا تھا ۔
اور اس کے بعد میں اس تعریف اور اس کی جادوئی شخصیت کی اڈیکشن کی شکار ہو گئی ۔ میں روز پارک میں آنے لگی۔وہ بھ روز آنے لگے
اک دن اس نے مجھے کہا کہ آپ میرے گھر میں اک پارٹی میں شرکت کرنے آ جاؤ میں آپ کو آرٹ کی اک نئی دنیا سے روشناس کراؤں گا میں اس کی باتوں میں آ گیی اور اک دن اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر کہ میں اپنی دوست کی سالگرہ پر جا رہی ہوں ان کے گھر آ گئ
مگر وہاں آکر مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے کتنی بڑی بھول بلکہ گناہ ہو گیا۔
مجھے پارٹی میں اپنا آپ ان فٹ لگنے لگا ۔
وہاں کا ماحول میرے لیے بالکل نیا تھا مرد اور عورت اک ساتھ ڈانس کر رہے تھے جب میں نے واپس جانے کے لیئے کہا تو اس نے کہا کہ آپ کو پارٹی ختم ہونے کے بعد خود ہی ڈراپ کر دونگا مگر جب پارٹی ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے گھر ڈراپ کرنے کے بجائے اک کمرے میں بند کر دیا۔اور خود مے وشراب میں کھو گیا
اور اب میری عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔میرے پاس اپنی عزت بچانے کا کوئی راستہ نہیں۔
میں اللّٰہ سے اپنی گناہ کے معا فی مانگنا چاہ رہی تھی مگر میں نے تو کھبی پورے دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھی اور اوپر سے جانداروں کی تصویریں بنا کر اللّٰہ کی نافرمانی الگ کی اس کے ذہن میں بے اختیار وہ حدیث گونجنے لگی۔

"اےالله ! تو معاف کرنے والا ہے اور تو معافی کو پسند
کرتا ہے پس مجھ کو معاف فرما دے۔ (ترمذی: 3513)
اور پھر میں نے سجدے میں گر کر اللّٰہ سے گڑگڑا کر معافی مانگی
اور اللّٰہ نے معاف کر دیا اک ملازم نے جان پر کھیل کر میری کی عزت بچا لی مگر پوری رات گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے میرے باپ نے عزت کی پامالی کے ڈر سے اس دنیا سے آنکھیں پھیر چکا تھا اور اب میں شرم سار ونادم اور پچھتاؤ میں کے گرداب میں پھنسی اور گھوم سوم سے باپ کے جنازے کی چارپائی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
اور پاس بیٹھی عورتوں کی سرگوشیاں روح کو کو چھلنی چھلنی کر رہی تھی ۔ اک ناتمام خلش میری زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔