غریبی
ایکواقعہ جومیرے ساتھ
پیشآیااورکئ روذتک ذہنپر
!!!! چھایارہا
میں نے جلدی سے بیڈ پر پڑے تحائف کو سمیٹا اور دروازہ کی طرف لپکی ۔
دروازہ کھولا تو سامنےاپاہج ضعیف خاتون کھڑی تھی جو کافی غریب معلوم ہو رہی تھی ۔میں نے تعارف پوچھا"جی کون؟؟
بیٹا میں نصیبن ہوں اماں کو بلالاوء وہ جانتیہیں۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ آخر یہ ہیں کون جنھیں امی جانتی ہیں اور میں نہیں میں نے انھیں دالان میں پڑے تخت پر بٹھایا اور امی کو اطلاع دی ۔
امی کو آتا دیکھ ان صاحبہ نے سلام کیا اور امی نے سلام کا جواب دیا
کہو کیسے آنا ہوا ؟"بس آپا بیٹی کی شادی ہے اور سسرال والے جہیز مانگ رہے ہیں اسی سلسلے میں کچھ رقم چاہیےتھی " انکا لہجہ غم زدہ تھا ۔بیٹی کی شادی کرنا بھی پہاڑ کھودنے سے کم نہیں ۔پتہ نہیں لوگوں میں اتنی حوس کیوں آگئی ہے ۔امی نے بے ساختہ کہا۔
امی نے ان سے پوچھے بنا ہی مجھے کھانا لانے کا اشارہ کیا ۔میں جلدی سے کھانا لے آئی۔
وہ کھانا کھا کر مجھے دعائیں دیتی رہی
امی نے ان کی اشک بار آنکھیں دیکھکر پوچھا" اچھا یہ بتاؤ کھانا کب کھایا تھا؟"
بیٹا پرسوں رات گھر کے سامنے ایک امیر زادہ گاڑی روک کر اترا جو نشہ میں دھت تھا کافی دیر لوٹنے کے بعد اس نے الٹی کی تو تھوڑے بہت چاول نکلے اسی کو دھو کر ہم ماں بیٹی نے کھایا ۔رحمکر مولا بے اختیار میرے منہ سے نکلا اور رونگٹے کھڑے ہو گئے
امی جان بھی جلدی اندر کی طرف لپکی اور کچھ رقم کے ساتھ بیٹی کے لئے کھانا بھی باندھ لائی ۔
دالان میں امی کو خدا حافظ کہہ کر وہ خاتون دروازہ کی طرف بڑھ گئی تو میں بھی دروازہ تک چھوڑنے ان کے ساتھ چل دی۔وہ جاتےہوئےآنکھوں میں نمی لیےبس یہی کہسکی خدا ایسی غریبی کسی کو نہ دےاور میں دروازہ بند کر کے اندر آگئی پر میرا ذہن ان کی باتوں میں گم تھا۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا جہاں امیرزادے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں وہیں ان کے خارج شدہ ٹکڑوں پر پلنے والے بھی کچھ لوگ ہوں گے ۔سالگرہ کے موقع پر دوستوں کے ساتھ کھائے گئے گولگپے، کیک، چاٹ، کولڈ ڈرنک سب میرے حلق میں پھنسنے لگے تھے اوردیر رات تکمیرے زہن پریہیالفاظ چھائے
ہوئے تھے خدا ایسی غریبی کسی
..................................... کو نہ دے
© All Rights Reserved
© Haya_t
پیشآیااورکئ روذتک ذہنپر
!!!! چھایارہا
میں نے جلدی سے بیڈ پر پڑے تحائف کو سمیٹا اور دروازہ کی طرف لپکی ۔
دروازہ کھولا تو سامنےاپاہج ضعیف خاتون کھڑی تھی جو کافی غریب معلوم ہو رہی تھی ۔میں نے تعارف پوچھا"جی کون؟؟
بیٹا میں نصیبن ہوں اماں کو بلالاوء وہ جانتیہیں۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ آخر یہ ہیں کون جنھیں امی جانتی ہیں اور میں نہیں میں نے انھیں دالان میں پڑے تخت پر بٹھایا اور امی کو اطلاع دی ۔
امی کو آتا دیکھ ان صاحبہ نے سلام کیا اور امی نے سلام کا جواب دیا
کہو کیسے آنا ہوا ؟"بس آپا بیٹی کی شادی ہے اور سسرال والے جہیز مانگ رہے ہیں اسی سلسلے میں کچھ رقم چاہیےتھی " انکا لہجہ غم زدہ تھا ۔بیٹی کی شادی کرنا بھی پہاڑ کھودنے سے کم نہیں ۔پتہ نہیں لوگوں میں اتنی حوس کیوں آگئی ہے ۔امی نے بے ساختہ کہا۔
امی نے ان سے پوچھے بنا ہی مجھے کھانا لانے کا اشارہ کیا ۔میں جلدی سے کھانا لے آئی۔
وہ کھانا کھا کر مجھے دعائیں دیتی رہی
امی نے ان کی اشک بار آنکھیں دیکھکر پوچھا" اچھا یہ بتاؤ کھانا کب کھایا تھا؟"
بیٹا پرسوں رات گھر کے سامنے ایک امیر زادہ گاڑی روک کر اترا جو نشہ میں دھت تھا کافی دیر لوٹنے کے بعد اس نے الٹی کی تو تھوڑے بہت چاول نکلے اسی کو دھو کر ہم ماں بیٹی نے کھایا ۔رحمکر مولا بے اختیار میرے منہ سے نکلا اور رونگٹے کھڑے ہو گئے
امی جان بھی جلدی اندر کی طرف لپکی اور کچھ رقم کے ساتھ بیٹی کے لئے کھانا بھی باندھ لائی ۔
دالان میں امی کو خدا حافظ کہہ کر وہ خاتون دروازہ کی طرف بڑھ گئی تو میں بھی دروازہ تک چھوڑنے ان کے ساتھ چل دی۔وہ جاتےہوئےآنکھوں میں نمی لیےبس یہی کہسکی خدا ایسی غریبی کسی کو نہ دےاور میں دروازہ بند کر کے اندر آگئی پر میرا ذہن ان کی باتوں میں گم تھا۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا جہاں امیرزادے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں وہیں ان کے خارج شدہ ٹکڑوں پر پلنے والے بھی کچھ لوگ ہوں گے ۔سالگرہ کے موقع پر دوستوں کے ساتھ کھائے گئے گولگپے، کیک، چاٹ، کولڈ ڈرنک سب میرے حلق میں پھنسنے لگے تھے اوردیر رات تکمیرے زہن پریہیالفاظ چھائے
ہوئے تھے خدا ایسی غریبی کسی
..................................... کو نہ دے
© All Rights Reserved
© Haya_t