...

16 views

پہاڑی ‏لڑکی ‏۔۔۔
یہ کہانی گلگت بلتستان کی بلند و بالا پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں میں جنم لینے والی محبت کی ہے
قاریئن کرام!
محبت اک ایسا چشمہ ہے جو احساس کی چٹانوں سے پھوٹتا ہے اور جسم روح کو سیراب کرتا ہے۔
اک نئی لکھاری کے طور پر یہ میری پہلی کہانی ہے امید کرتی ہوں کہ آ پ سب مجھے اخلاقی سپورٹ کریں گے اور اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئ ہو تو کھلے دل سے درگزر کریں گے
گلگت بلتستان کی ایک خوبصورت وادی نگر میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں سرمئی پتھروں اور لکڑیوں سے بنے ہوئے گھروں میں اک گھر تین بھائیوں محمد خاں،ابراھیم اور اسماعیل کا بھی ہے بڑے بھائی محمد خاں کا ایک بیٹا زریاب خان اور منجھلے بھائی کی ایک بیٹی دعا گل ہوتی ہے جبکہ چھو ٹا بھائی ابھی تک بے اولاد ہوتا ہے۔ان کا گھرانہ باقی گاؤں والوں کی بنسبت خوشحال ہوتا ہے ۔والدین حیات نہیں ہے ہے جو ان کے لے ورثے میں خوبانی،چیری اور سیب کے باغات چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔بڑے دو بھائی با غات کی نگرانی کرتے ہیں جبکہ چھوٹا بھائی اسماعیل کراچی کے ایک مشہور یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔
©زیاب خان اور ‏دعاگل ‏ہم ‏عمر ‏ہوتے ‏ہیں ‏دونوں ‏اک ‏ہی ‏سکول ‏میں ‏اک ‏ہی ‏کلاس ‏میں ‏پڑھتے ‏ہیں۔ان ‏کے ‏چھوٹے ‏چچا ‏اسماعیل ‏کو ‏اللہ ‏ ‏پانچ ‏سال ‏بعد ‏اک ‏بیٹی ‏سے ‏نواز ‏دیتا ‏ہے ‏۔زیاب ‏خان ‏اور ‏دعا ‏گل ‏کی ‏خوشی ‏کا ‏کوئی ‏ٹھکانہ ‏نہیں ‏ہوتاجیسے ‏ان کو۔ننھی زرمینہ کی ‏صورت ‏میں ‏اک ‏کھیلونا ‏مل ‏گیا ‏مگر ‏ان ‏کی ‏خوشی ‏اس ‏وقت ‏ماند ‏پڑ ‏جاتی ‏ہے ‏جب ‏اسماعیل ‏چچا ‏اپنی ‏فیملی ‏کے ‏ساتھ ‏کراچی ‏منتقل ‏ہونے ‏کا ‏فیصلہ ‏سنا ‏دیتا ‏ہے۔
‏کچھ ‏دن ‏توگھر ‏ننھی زرمینہ ‏کے ‏بغیر ‏سونا ‏سونا ‏ہوتا ‏ہے ‏مگر ‏پھر ‏زندگی ‏معمول ‏پر ‏آجاتی ‏ہے۔کیوں ‏کہ ‏گاٶں ‏کی ‏زندگی ‏بڑی ‏پر ‏رونق ‏ہوتی ‏ہے ‏جیسے ‏اس ‏گاٶں ‏کے ‏گھر ‏اک ‏دوسرے ‏کے ‏ساتھ ‏جڑے ‏ہوے ‏ہیں ‏اسے ‏ہی ‏ان ‏کے ‏دل ‏بھی ‏جڑے ‏ہوۓ ‏ہوتے ‏ہیں۔
‏زریاب ‏اور ‏دعاگل ‏اک ‏ساتھ ‏ہنستے ‏کھلتےشراتیں ‏کرتے ‏ہوے ‏جوانی ‏کے ‏دہلیز ‏پر ‏قدم ‏رکھ ‏لیتے ‏ہیں ‏اب ‏دونوں ‏کے ‏سکول ‏الگ ‏الگ ‏ہو ‏چکے ‏ہیں۔مگر ‏اک ‏ہی ‏گھر ‏میں ‏رہتے ‏ہوۓ ‏دونوں ‏کے ‏دل ‏اک ‏دوسرے ‏سے ‏بہت ‏جڑے ‏ہوۓ ‏تھے ‏وہ ‏دونو ‏اب ‏بھی ‏اک ‏دوسرے ‏کے ‏ساتھ ‏ہنسی ‏مزاق ‏کرتے ‏ہیں ‏مگر ‏دعا ‏گل ‏کے ‏انداز ‏میں ‏بہت ‏بدلاٶ ‏آ ‏چکا ‏ہے ‏زریاب ‏خان ‏کی ‏مو ‏جودگی ‏میں ‏اس ‏کا ‏دل ‏عجیب ‏انداز ‏سے ‏دھڑکتا ‏ہے۔زریاب ‏خان ‏بھی ‏اس ‏کے ‏گریزاں ‏انداز ‏پر ‏خیران ‏ہو ‏جاتا ‏ہے۔کیوں ‏بچپن ‏کی ضدی ‏اور ‏چیختی ‏چلاتی ‏دعا ‏گل ‏اب ‏اک ‏کم ‏گو ‏اور ‏شرمیلی ‏ یا لڑکی کا میں ‏تبدیل ‏ہو ‏گٸ۔
‏بچپن ‏سے ‏جوانی ‏کے ‏اس ‏سفر ‏میں ‏جانے ‏کب ‏اور ‏کس ‏موڑ ‏پر ‏دعا ‏گل ‏کے ‏دل ‏میں ‏میں ‏زریاب ‏خان ‏کے ‏لیے ‏مخبت ‏کا ‏کونپل ‏پھوٹ ‏نکلا ‏جو ‏آگے ‏جا ‏کر ‏اک ‏تناور ‏درخت ‏بننے ‏والا ‏ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏جاری ‏ہے
© All Rights Reserved