...

2 views

Instalker ( instagram+stalker)
میں انسٹاکر ہوں۔ اسٹاکر وہ بھی بس انسٹا کی حد تک۔عجیب لگا نا سن کر۔ حقیقی زندگی سے کہیں بہتر ہے کسی کو بس انسٹا پر بھی دور دور سے تاک لیا جائے۔ دیکھا جائے جی بھر کر اسکے پل پل کی زندگی کی خبر رکھی جائے۔یہ دیکھا جائے کیسی گزر رہی کسی کی زندگی کیا کر رہا وہ آج کل کیا کھایا کہاں گیا سب کچھ تو سب لوگ انسٹا پر ڈال دیتے ہیں۔ اور میرے جیسے بےروزگاروں کا مشغلہ ۔کسی کے گھر جا کر دروازے پر سارا دن کھڑےرہ کر بھی اتنی واقفیت نہ ہو کسی کے حال زندگی سے جتنا آجکل انسٹا پر چپکے چپکے بنا لائک کمنٹ کیئے تکتے جانے سے باخبرہو جایا جائے۔ کوئی لڑکی پسند آجائے تو کبھی کبھار پیغام بھی بھیج لیتا ہوں مگر حرام ہے جو پچھلے سات سالوں میں کسی لڑکی نے بھی جواب دیا ہو۔ سب کے پیغام بنا پڑھے ہی رہ جاتے ہیں۔ انسٹا کو کم از کم اسپیم کا آپشن نہیں نکالنا چاہیئے تھا۔ کم از کم میرا بھلا ہوجایا کرتا مگر اس دل کا کیا کیجئے جو ہزاروں رنگ برنگی تتلیوں میں بس ایک ہی چہرہ کھوجتا ہے۔ روما۔ نام تو پورا رومانہ ہے اسکا مگر انسٹا پر آئی ڈی روما کے نام سے ہی ہے اسکی پبلک پروفائل۔ جس پہلی اور آخری لڑکی نے مجھے انسٹا پر سپیم کرنے کی بجائے جواب دیا تھا۔میں نے ہائی لکھ کربھیجا تھا سات سال قبل اور اس نےمجھے جوابا لکھا ہائے۔ میری آئی ڈی پر میری لاہور میں مینار پاکستان کو چٹکی میں تھامتےمسکراتے ہوئے کیمرے کی آنکھوں میں دیکھتے والی تصویر جو تھی پروفائل پر۔ نظر انداز نہیں کر پائی اور میں بھی تو کچے دھاگے سے بندھا اسکی پروفائل پر گیا تھا اسکی مہندی والے ہاتھوں سے کھڑکی بنا کر کاجل سے سجی مسکارے سے بوجھل پلکیں پٹپٹاتے ہوئے ایک رومانوی گانے پربنئ ٹک ٹاک والی ویڈیو سے۔ ایک لاکھ ویوز تھے مگر پوری پروفائل پر کہیں مکمل چہرے کی تصویر نہ تھی۔ کبھی ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے کبھی پیرو میں کھسہ پھنساتے کبھی دھندلی کرکے چہرہ چھپاتے صندلی وجود پر پشواز کی لانبی فراک کا گھیرا بناتے ویڈیو کبھی کرتے پاجامے میں مڑ کر دیکھتی ۔ اس دن میں نے اسکی ستر کے قریب ویڈیوز دیکھی تھیں اس سے ذیادہ ہوتیں تو وہ بھی دیکھ لیتا مگر تھیں ہی بس ستر۔ دو تین گھنٹے بس ایک ایک ویڈیو کو دیکھتا پسند کرتا رہا ہر ویڈیو پر کمنٹ کیا تھا۔ اسے متاثر ہونا پڑا۔ شکر گزار ہوئئ اور میں؟ میں اسکے جواب دینے پر ہوائوں میں اڑتا پھرا تھا۔ تبھی سوچ لیا تھا اس کو ہی اپنے دل کی ملکہ بنائوں گا۔ شکل تک نہ دیکھی تھی۔ مگر جزبہ سچا تھا۔ روز ہی کچھ نہ کچھ اسے بتانے کیلئے ہوتا تھا میرے پاس۔ اسے پیغام بھیجتا وہ دیر سے سہی مگر پڑھ کر جواب ضرور دیتی تھی۔ ہم تقریبا ہم عمر ہی تھے بس کچھ فاصلے تھے ہمارے درمیان میں گجرانوالہ میں رہتا تھا اور وہ کراچی میں۔ مگر تب ہمیں لگتا تھا فاصلے دلوں کےہوتے ہیں بس اور دل تو ہمارے مل گئے تھے۔ آہستہ آہستہ اسے مجھ پر اعتبار آتا گیا۔ اس عید کے دن میں نے اس سے فرمائش داغ دی۔ مجھے اپنی تصویر بھیجو تیار ہو کر۔ مجھے لگا تھا وہ بہانے کرے گی۔ اور میں جتائوں گا اعتبار نہیں مجھ پر؟ مجھ پر شک؟ میں اجنبی ہوں تمہارے لیئے مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اس نے مجھے اپنی تصویر بھیج دی تھی۔میرے تصور سے ذیادہ خوبصورت لڑکی تھی۔رنگ تو...