...

6 views

میں اب تمہاری محبت کی طلبگار نہیں رہی
مجھے معاف کرنا مگر میں تمہاری چاہت کی طلبگار رہی ہی نہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ مجھے تم سے نفرت ہے بلکہ وجہ تو یہ ہے کہ میں خود کو تمہارے بغیر جینے کی عادت ڈال چکی ہوں۔ایک عرصہ لگا اس میں اور اب میں ہرگز یہ نہیں چاہوں گی کہ میری عادتیں پھر سے خراب ہوں۔ پہلی دفعہ جب تم بدلے تب تو میں تمہارے بدل جانے کا تصور بھی نہیں کیا کرتی تھی۔ بہت مشکل تھا خود کو سنبھالنا مگر یہ ضروری بھی تھا تو مجھے کرنا ہی پڑا یہ۔ میں ہمیشہ سے ہی دل کے ہاتھوں مجبور رہی تم سے کبھی دور ہونا چاہا ہی نہیں بس تمہارے فیصلوں اور فاصلوں کے آگے سر جھکاتی آئی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تم واپس آئے تو میں دل کی سنے بغیر رہ نہ پائی۔ مگر سمجھدار ہونے کے ناطے دماغ کی بھی سن رکھی تھی کہ تم پھر سے چلے جاؤ گے۔ میں دور ہونے کو تیار تھی مگر تم اور دھوکا۔۔۔ یہ بات نہ ذہن تسلیم کر پایا نہ دل اور نہ ہی تم مانے۔۔۔مگر دیکھو محبت میں اندھے ہو جانے سے یا اپنی تسلی کے لیے کچھ دلائل اکٹھے کر لینے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ حقیقت تو وہی رہے گی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور محسوس کی۔ میں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ تم مجھے محبوب رہے مگر تم مجھے محبوب ہو کہنا غلط ہو گا۔ میرے دل میں اذیت سہنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ میں بہت تھک گئی ہوں۔ میں تمھیں ہمت تو دے سکتی مگر محبت نہیں۔ انسانیت کا رشتہ ختم کرنے کی میرا ضمیر اجازت ہی نہیں دیتا کیونکہ اگر ایسا کر دوں گی تو تم میں اور مجھ میں کوئی واضح فرق بچے گا ہی نہیں۔ اور تم یہ ہرگز نہ سمجھو کہ تم جس اذیت سے گزرے ہو یا گزر رہے ہو تم نے مجھے محروم رکھا اس سے۔۔۔ تم تو ہر چیز سے واقف تھے نا پھر بھی اذیت میں ہو مگر مجھے تو ان سب کا اچانک سے تحفہ دیا گیا۔ کسی اور پہ لکھی کہانیاں مجھے سننی پڑی۔ تم کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکو اس کے لیے مجھے اپنا دل مارنا پڑا۔ تم نے بھی تو جھوٹ بولے تم نے بھی تو بہت سے دھوکوں کو راز رکھا۔ سب کے سامنے میرا مذاق بنایا۔ کسی اور کو خوش کرنے اور اس کے اعتماد کی خاطر مجھے اذیت دی۔اور تم کہتے ہو کہ تم نے مجھے وہ اذیت تو دی ہی نہیں جسے لوگ مکافات کا نام دے رہے۔ یقین جانو تم نے مجھے اس سے بھی بڑھ کر اذیت دی۔میرے پاس شاید ہی تمہیں دینے کے لیے صرف حوصلہ بچا ہو۔

© Aleena Tanveer