بےموت مارے گۓ ہم اپنی ہی داستان میں
#dont_copy_paste_without_my_permission....
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#ناول_بےموت_مارے_گٸے_ہم_اپنی_ہی_داستان_میں
#قسط_1
#از_عظمی_پروین
موت مقرر ہے اپنے وقت کو جا ذرا میرے یار پرانے لیے آ
بجھا بجھا ہے آنگن میرا خزا کے خوف سے جا ذرا دیر کو بہار پرانی لے آ
پرندے قید میں ہیں میرے نجات قید کے سامان لے آ
تجھ سے کچھ اور اگر نہ ہو تو جا ذرا میرے شوق پرانے لے آ
خواب کچھ یوں فنا ہے آنکھوں میں ذرا ان کے لئے تابوت لے آ
آنکھیں آزردہ ہیں میری پرتال چشم کے سامان لے آ
#از_خد
فجر ہونے میں ابھی کچھہ وقت باقی تھا کمرے کے گوشہ میں جاٸہ نماز بچھاٸے وہ اپنے رب سے رابطہ قائم کرنے میں مگن تھی۔ وقت ایک لمحہ میں گزرتا ہے یادین رہ جاتی ہے سکون ان یادوں کے بھیت چڑه جاتا ہے اس کا سکون بھی گزری ہوٸی تلخ یادوں کے بھیٹ چڑ کر تمام ہوچکا تھا۔ وہ اب زندہ تو تھی مگر اس کے اندر زندگی کی سی کوٸی چیز نظر نہیں آتی تھی گھر کے بڑے حوصلہ دیتے ہیں اس کے لیے وہ حوصلہ رب نے کہی نہیں رکھا تھا ۔کچھہ کھونے جانے پر اپنے صبر کی دعا دیتے ہیں لیکن اس کے اپنوں نے اس سے سب چھین کر بھی صبر کی دعا نہیں دی تھی ۔اس نے زندگی میں خدا سے صبر مانگا تھا اور پھر صبر تو اسے مل گیا لیکن سکون کہی دور کھو گیا تھا ملتا بھی کیسے وہ سب کچھہ کھونے کے بعد طلبِ سکون تھی اور سب کچھہ جس کا کھوجاٸے اس کے پاس بھلا سکون کہاں سے آتا ہے ۔
اس نے اپنی انکھ میں آٸی ہوٸی نمی صاف کی اور اپنے ذہن میں آٸی ہوٸی سوچو کو پیچھے دکیل کر اس نے اپنے مصحف کو کھولا کل جہاں چھوڑا تھا وہاں سے پڑھنے لگی۔
”اس طرح ہم نے اس سر زمیں میں یوسفؓ کے لیے اقتدار کے راہ ہموار کی۔وہ مختار تھے کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ۔ہم اپنی رحمت سے جسکو چاہتے ہیں نوازتے ہیں نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا۔ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہت ہے جو ایمان لے آٸے اور خدا ترسی کے ساتھ کرتے
رہے”۔
(سورۃ یوسف)
یہ پڑھنے کے بعد اسے ایک دم اپنے دکھ بہت چھوٹے لگنے لگے اسے اپنے اللہّﷻ پر پیار آنے لگا کیسے اللہّﷻ اس کے ہر زخم پر مرحم رکھتے تھے نا وہ ایک دم سے مسکرا کر رہ گٸ۔
*********************************************
ماما آپ کیوں لیٹ آتے ہو ؟ وہ دس سالہ گول مٹول پیارہ سا بچا اپنی ماں کے سامنے شکایت کرنے میں مشغول تھا ۔
"بیبی مجھے بہت کام ہوتےہیں نا اسکول میں" ۔
اس نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوٕے اسے اپنے لیٹ آنے کی وجہ بتإی اور اس کے اشد ناراض ہونے کے باوجود اسے ایک منٹ میں مانا لیا ہمیشہ کے طرح اسے اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانے لگی ۔
"ماما آپ کے لیےایک سرپرٸز ہے آپ کو پتا ہے کیا ہے اس میں"؟
اممم اس نے لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کن اکھیوں سے اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کو دیکھا جو مصروف نظر آنے کی اداکاری کرنے میں مصروف تھے پھر اس نے سوچنے کے سے انداز میں تھوڑی پر ہاتھ رکھا اور سوچنے کی کوشش میں مشغول ہوگٸ۔
”ماما آپ اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو وہ اب منہ بنا کر بیٹھ گیا"۔
”بیبی ماما آپ کی طرح ذہیں نہیں ہیں نا اور گھر والے بھی آپ کی ساٸیڈ ہیں“ ۔ اس نے شکایت کی جسے سن کر سامنے بیٹھے وجودوں نے ہنسی دباٸی ۔۔۔۔۔۔اچھا ماما ہار مانتی ہے آپ ہی بتاٶ ۔اس نے منہ بنایا
ہاہاہاہا ماما آپ بھی نا وہ کھلکھلا کر ہنس دیا ساتھ وہ دونوں بھی ہنس دیئے اور پھر آن کے آن وہ اٹھ کر اندر بھاگ گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چکور ڈبہ تھا ۔
"ماما اس کو کھولیں" ۔ اس نے یہ اپنی ماما کو پکڑا دیا
اس نے وہ ڈبہ لے کر اس کو کھولااس کے اندرایک حسیں سی گھڑی اور ایک چھوٹا سا کارڈ تھا ۔
وہ دونوں چیزیں ہاتھ میں لے کر سب کو نم انکھوں سے دیکھنے لگی ۔ تبھی وہ پھر بولاماما پڑھے نا ۔
تبھی اس نےوہ کارڈکھولا اس پر لکھا تھا۔
Happy birthday mama have many returns of the day mama you are the best mama ever we love you mama…
پتا نہیں آج کتنے سالوں بعد اسے کسی نے برتھڈے وش کیا تھا وہ اچانک ماضی میں کھو کر رہ گٸ۔ دی کی ڈیتھہ کےبعد اسے تو بھول ہی گیا تھا کہ اسکی Birthday کب ہوتی ہے ۔
ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے پھر اسے آواز دی ۔
وہ اس کی آواز پر ماضی سے واپس لوٹی اور اسے جھک کر پیار کرنے لگی ۔۔
*****************************
۔
الیاس ولا آج عرصہ بعد تنہائیوں سے جان چھوڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا آج عرصہ بعد گھر میں جگہ جگہ لوگوں کا جمگھٹا تھا مگر خوشی کی سی کوٸی چیز یہاں آج بھی نہیں تھی۔اس روحِ زمیں پر کچھ جگہے ایسی بھی ہیں جہاں پر سکوں اور خوشیاں مانو حرام کر دی گٸ ہیں یہ گھر بھی ایسی ہی کسی جگہ کا پتا دیتا تھا ۔
آج یہ بڑا سا بنگلے نما گھر لوگوں سے بھرا تھا مگر ایک وحشت سی تھی اس کی فصا میں۔
یہاں سے آج ایک روح نے آسمان کی طرف پرواز بھری تھی۔
وہ روح جس کے ہوتے ہوٸے اپنو نے اس کی کبھی قدر نہیں کی اسے ہمیشہ برا سمجھا تھا اس کے جانے کے بعد ان لوگوں کو اس سے ہمدردی ہونے لگی تھی لوگوں کو اس کی محرومیاں اور زیادتیاں جو اس کے ساتھ ہوئی اب نظر آنے لگی تھی مگر اب ان کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن کون ان کو سمجھاٸے وقت ہاتهوں سے نکل چکا تھا ۔
گھر کی رونق مانند پڑ چکی تھی صحن کے نقط میں ایک چارپاٸی پر ایک وجود بےجان پڑا تھا اور اس کے اردگرد موجود لوگ وہ جو اس کے بے جان ہونے تک اسکے وجود سے بے خبر تھے ۔اس کے جانے پر اس کے دکھ میں نڈال ہوئے جاتے تھے۔
پھر وہ وقت بھی اگیا جب اس کے جانے کا وقت آن پونچا اور گھر کی فضا سسکیوں کے بعد چیخوں سے گونج اٹھی وہ وجود آج اس سیاہ سی رنگین دنيا کو آلوادع کہ کر اپنے خوبصورت صفر پر چل بسا مگر پیچھے چھوڑ جانے والوں کو تنہا کر گیا۔
آج اس عظيم وجود کو گٸے ہوئے تین دن گزر گٸے تھے دیکھاوہ کرنے والے رشتہ دار رخصت ہوچکے تھے اور وہ اس کے گھر کے چار لوگ اب بھی ماتمکنان تھے ایک جوان موت وہ بھی اچانک مانو اس نے گھر میں رہنے والوں کو روشنیون سے کنارہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
***************************************
صبح کی روشنی اب اندھیرے کو دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور پراٹھوں کی پرلطف خوشبو نے گھر میں اپنے پر پھیلا رکھے تھے۔
اور اس عظیم گھر کے نفیس لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ ابا بھائی کو لیے نماز کو گئے تھے اماں ، بوأ کے ساتھ کچن میں پراٹھے بنانے میں مصروف تھیں اور دی گڑیا کو باتیں سنانے میں مصروف ہو گی۔
" گڑیا تم کب سدروگی "وہ غصے سے پاگل ہورہی تھی آج پھر گڑیا نے اسکول کا کام نہیں کیا تھا اور اب اسکول نہ جانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔
" دی میں نے ہومورک کیا تھا پتا نہیں یہ تھوڑا سا کیسے رہ گیا"۔
" شیٹ اپ گڑیا اب پھر کوئی جھوٹ گھڑنے نہ بیٹھ جانا تمہیں پتا ہے جھوٹے لوگوں کہ دل پر اللہ جی ایک بلیک ڈاٹ لگا دیتے ہیں ہر جھوٹ کے ساتھ اور پھر آہستہ آہستہ ان کے دل بلیک ہو جاتے ہیں اور جن کے دل بلیک ہوجائیں ان کے دل مردہ ہو جاتے ہیں اور مردہ دلوں میں کبھی ہدایت نہیں آتی"۔
" ہاں دی پتا ہے ہمیں اس نے بیزاری سے سر جھٹکا تھا"۔
" اچھا چلو پھر بتاؤ اسکول کا کام کیوں نہیں کیا ہاں۔۔۔۔؟؟؟؟
"دی وہ ہم بھول گئے تھے۔" اس کی آواز میں اتنی معصومیت تھی کہ پیچھے کھڑے ابا بھی اپنی ہنسی روک نہ سکے۔
" وا واہ واہ ماشاء اللہ مجھے ذرا بتاؤ تو گڑیا تم کون کون سے کام کرتی ہو جو تمہیں اپنا ہوم ورک بھی یاد نہیں رہتا "۔اس کی آواز میں طنز تھا۔
" دی آپ ہمیں شرمندہ کر رہی ہیں۔" اس نے سر مزید جھکالیا۔
اپنی لاڈلی بیٹی کا سر جھکا ہوا دیکھتے ہی الیاس احمد سے اور رہا نہ گیا اور وہ اندر چلے آئے۔
"او میرے لاڈلے بچے۔"۔ بڑی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے غصے کو خارج کرنے کی کوشش کی اور چھوٹی کو گلے لگا لیا۔
" بابا آپ نے ہی اسے بگاڑ رکھا ہے پتا نہیں کیا ہو گا اس کا ۔" وہ پیر پٹک کر کمرے سے نکل گئی۔
اس کے جاتے ہی الیاس احمد ہے اپنی گڑیا کو سمجھانا شروع کر دیا
" اس کے یہی حالات رہے تو فیل ہوجائے گی"_ وہ کچن میں آکر اپنے غصے کو جھاڑنے لگی اس کی آواز سن کر ماں اور بوأ ایک دوسرے کے کانوں میں گھسر پھسر کرنے لگی اور وہ دونوں اپنی ہنسی دبانے میں ناکام دیکھنے لگی۔
یہ اس گھر کی صبح تھی چلو خوشیوں سے نہ سہی مگر سکون سے بھرپور اور محبت سے لبریز تھی اور پھر کس کو پتہ تھا کہ یہ گھر اور اس کو سکون اپنوں کے پیچھے اندھیروں میں ڈوب جائے گا اور تنہائیاں اس کا مقدر بن کر رہ جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
© uzma Parveen
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#ناول_بےموت_مارے_گٸے_ہم_اپنی_ہی_داستان_میں
#قسط_1
#از_عظمی_پروین
موت مقرر ہے اپنے وقت کو جا ذرا میرے یار پرانے لیے آ
بجھا بجھا ہے آنگن میرا خزا کے خوف سے جا ذرا دیر کو بہار پرانی لے آ
پرندے قید میں ہیں میرے نجات قید کے سامان لے آ
تجھ سے کچھ اور اگر نہ ہو تو جا ذرا میرے شوق پرانے لے آ
خواب کچھ یوں فنا ہے آنکھوں میں ذرا ان کے لئے تابوت لے آ
آنکھیں آزردہ ہیں میری پرتال چشم کے سامان لے آ
#از_خد
فجر ہونے میں ابھی کچھہ وقت باقی تھا کمرے کے گوشہ میں جاٸہ نماز بچھاٸے وہ اپنے رب سے رابطہ قائم کرنے میں مگن تھی۔ وقت ایک لمحہ میں گزرتا ہے یادین رہ جاتی ہے سکون ان یادوں کے بھیت چڑه جاتا ہے اس کا سکون بھی گزری ہوٸی تلخ یادوں کے بھیٹ چڑ کر تمام ہوچکا تھا۔ وہ اب زندہ تو تھی مگر اس کے اندر زندگی کی سی کوٸی چیز نظر نہیں آتی تھی گھر کے بڑے حوصلہ دیتے ہیں اس کے لیے وہ حوصلہ رب نے کہی نہیں رکھا تھا ۔کچھہ کھونے جانے پر اپنے صبر کی دعا دیتے ہیں لیکن اس کے اپنوں نے اس سے سب چھین کر بھی صبر کی دعا نہیں دی تھی ۔اس نے زندگی میں خدا سے صبر مانگا تھا اور پھر صبر تو اسے مل گیا لیکن سکون کہی دور کھو گیا تھا ملتا بھی کیسے وہ سب کچھہ کھونے کے بعد طلبِ سکون تھی اور سب کچھہ جس کا کھوجاٸے اس کے پاس بھلا سکون کہاں سے آتا ہے ۔
اس نے اپنی انکھ میں آٸی ہوٸی نمی صاف کی اور اپنے ذہن میں آٸی ہوٸی سوچو کو پیچھے دکیل کر اس نے اپنے مصحف کو کھولا کل جہاں چھوڑا تھا وہاں سے پڑھنے لگی۔
”اس طرح ہم نے اس سر زمیں میں یوسفؓ کے لیے اقتدار کے راہ ہموار کی۔وہ مختار تھے کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ۔ہم اپنی رحمت سے جسکو چاہتے ہیں نوازتے ہیں نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا۔ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہت ہے جو ایمان لے آٸے اور خدا ترسی کے ساتھ کرتے
رہے”۔
(سورۃ یوسف)
یہ پڑھنے کے بعد اسے ایک دم اپنے دکھ بہت چھوٹے لگنے لگے اسے اپنے اللہّﷻ پر پیار آنے لگا کیسے اللہّﷻ اس کے ہر زخم پر مرحم رکھتے تھے نا وہ ایک دم سے مسکرا کر رہ گٸ۔
*********************************************
ماما آپ کیوں لیٹ آتے ہو ؟ وہ دس سالہ گول مٹول پیارہ سا بچا اپنی ماں کے سامنے شکایت کرنے میں مشغول تھا ۔
"بیبی مجھے بہت کام ہوتےہیں نا اسکول میں" ۔
اس نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوٕے اسے اپنے لیٹ آنے کی وجہ بتإی اور اس کے اشد ناراض ہونے کے باوجود اسے ایک منٹ میں مانا لیا ہمیشہ کے طرح اسے اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانے لگی ۔
"ماما آپ کے لیےایک سرپرٸز ہے آپ کو پتا ہے کیا ہے اس میں"؟
اممم اس نے لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کن اکھیوں سے اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کو دیکھا جو مصروف نظر آنے کی اداکاری کرنے میں مصروف تھے پھر اس نے سوچنے کے سے انداز میں تھوڑی پر ہاتھ رکھا اور سوچنے کی کوشش میں مشغول ہوگٸ۔
”ماما آپ اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو وہ اب منہ بنا کر بیٹھ گیا"۔
”بیبی ماما آپ کی طرح ذہیں نہیں ہیں نا اور گھر والے بھی آپ کی ساٸیڈ ہیں“ ۔ اس نے شکایت کی جسے سن کر سامنے بیٹھے وجودوں نے ہنسی دباٸی ۔۔۔۔۔۔اچھا ماما ہار مانتی ہے آپ ہی بتاٶ ۔اس نے منہ بنایا
ہاہاہاہا ماما آپ بھی نا وہ کھلکھلا کر ہنس دیا ساتھ وہ دونوں بھی ہنس دیئے اور پھر آن کے آن وہ اٹھ کر اندر بھاگ گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چکور ڈبہ تھا ۔
"ماما اس کو کھولیں" ۔ اس نے یہ اپنی ماما کو پکڑا دیا
اس نے وہ ڈبہ لے کر اس کو کھولااس کے اندرایک حسیں سی گھڑی اور ایک چھوٹا سا کارڈ تھا ۔
وہ دونوں چیزیں ہاتھ میں لے کر سب کو نم انکھوں سے دیکھنے لگی ۔ تبھی وہ پھر بولاماما پڑھے نا ۔
تبھی اس نےوہ کارڈکھولا اس پر لکھا تھا۔
Happy birthday mama have many returns of the day mama you are the best mama ever we love you mama…
پتا نہیں آج کتنے سالوں بعد اسے کسی نے برتھڈے وش کیا تھا وہ اچانک ماضی میں کھو کر رہ گٸ۔ دی کی ڈیتھہ کےبعد اسے تو بھول ہی گیا تھا کہ اسکی Birthday کب ہوتی ہے ۔
ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے پھر اسے آواز دی ۔
وہ اس کی آواز پر ماضی سے واپس لوٹی اور اسے جھک کر پیار کرنے لگی ۔۔
*****************************
۔
الیاس ولا آج عرصہ بعد تنہائیوں سے جان چھوڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا آج عرصہ بعد گھر میں جگہ جگہ لوگوں کا جمگھٹا تھا مگر خوشی کی سی کوٸی چیز یہاں آج بھی نہیں تھی۔اس روحِ زمیں پر کچھ جگہے ایسی بھی ہیں جہاں پر سکوں اور خوشیاں مانو حرام کر دی گٸ ہیں یہ گھر بھی ایسی ہی کسی جگہ کا پتا دیتا تھا ۔
آج یہ بڑا سا بنگلے نما گھر لوگوں سے بھرا تھا مگر ایک وحشت سی تھی اس کی فصا میں۔
یہاں سے آج ایک روح نے آسمان کی طرف پرواز بھری تھی۔
وہ روح جس کے ہوتے ہوٸے اپنو نے اس کی کبھی قدر نہیں کی اسے ہمیشہ برا سمجھا تھا اس کے جانے کے بعد ان لوگوں کو اس سے ہمدردی ہونے لگی تھی لوگوں کو اس کی محرومیاں اور زیادتیاں جو اس کے ساتھ ہوئی اب نظر آنے لگی تھی مگر اب ان کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن کون ان کو سمجھاٸے وقت ہاتهوں سے نکل چکا تھا ۔
گھر کی رونق مانند پڑ چکی تھی صحن کے نقط میں ایک چارپاٸی پر ایک وجود بےجان پڑا تھا اور اس کے اردگرد موجود لوگ وہ جو اس کے بے جان ہونے تک اسکے وجود سے بے خبر تھے ۔اس کے جانے پر اس کے دکھ میں نڈال ہوئے جاتے تھے۔
پھر وہ وقت بھی اگیا جب اس کے جانے کا وقت آن پونچا اور گھر کی فضا سسکیوں کے بعد چیخوں سے گونج اٹھی وہ وجود آج اس سیاہ سی رنگین دنيا کو آلوادع کہ کر اپنے خوبصورت صفر پر چل بسا مگر پیچھے چھوڑ جانے والوں کو تنہا کر گیا۔
آج اس عظيم وجود کو گٸے ہوئے تین دن گزر گٸے تھے دیکھاوہ کرنے والے رشتہ دار رخصت ہوچکے تھے اور وہ اس کے گھر کے چار لوگ اب بھی ماتمکنان تھے ایک جوان موت وہ بھی اچانک مانو اس نے گھر میں رہنے والوں کو روشنیون سے کنارہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
***************************************
صبح کی روشنی اب اندھیرے کو دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور پراٹھوں کی پرلطف خوشبو نے گھر میں اپنے پر پھیلا رکھے تھے۔
اور اس عظیم گھر کے نفیس لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ ابا بھائی کو لیے نماز کو گئے تھے اماں ، بوأ کے ساتھ کچن میں پراٹھے بنانے میں مصروف تھیں اور دی گڑیا کو باتیں سنانے میں مصروف ہو گی۔
" گڑیا تم کب سدروگی "وہ غصے سے پاگل ہورہی تھی آج پھر گڑیا نے اسکول کا کام نہیں کیا تھا اور اب اسکول نہ جانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔
" دی میں نے ہومورک کیا تھا پتا نہیں یہ تھوڑا سا کیسے رہ گیا"۔
" شیٹ اپ گڑیا اب پھر کوئی جھوٹ گھڑنے نہ بیٹھ جانا تمہیں پتا ہے جھوٹے لوگوں کہ دل پر اللہ جی ایک بلیک ڈاٹ لگا دیتے ہیں ہر جھوٹ کے ساتھ اور پھر آہستہ آہستہ ان کے دل بلیک ہو جاتے ہیں اور جن کے دل بلیک ہوجائیں ان کے دل مردہ ہو جاتے ہیں اور مردہ دلوں میں کبھی ہدایت نہیں آتی"۔
" ہاں دی پتا ہے ہمیں اس نے بیزاری سے سر جھٹکا تھا"۔
" اچھا چلو پھر بتاؤ اسکول کا کام کیوں نہیں کیا ہاں۔۔۔۔؟؟؟؟
"دی وہ ہم بھول گئے تھے۔" اس کی آواز میں اتنی معصومیت تھی کہ پیچھے کھڑے ابا بھی اپنی ہنسی روک نہ سکے۔
" وا واہ واہ ماشاء اللہ مجھے ذرا بتاؤ تو گڑیا تم کون کون سے کام کرتی ہو جو تمہیں اپنا ہوم ورک بھی یاد نہیں رہتا "۔اس کی آواز میں طنز تھا۔
" دی آپ ہمیں شرمندہ کر رہی ہیں۔" اس نے سر مزید جھکالیا۔
اپنی لاڈلی بیٹی کا سر جھکا ہوا دیکھتے ہی الیاس احمد سے اور رہا نہ گیا اور وہ اندر چلے آئے۔
"او میرے لاڈلے بچے۔"۔ بڑی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے غصے کو خارج کرنے کی کوشش کی اور چھوٹی کو گلے لگا لیا۔
" بابا آپ نے ہی اسے بگاڑ رکھا ہے پتا نہیں کیا ہو گا اس کا ۔" وہ پیر پٹک کر کمرے سے نکل گئی۔
اس کے جاتے ہی الیاس احمد ہے اپنی گڑیا کو سمجھانا شروع کر دیا
" اس کے یہی حالات رہے تو فیل ہوجائے گی"_ وہ کچن میں آکر اپنے غصے کو جھاڑنے لگی اس کی آواز سن کر ماں اور بوأ ایک دوسرے کے کانوں میں گھسر پھسر کرنے لگی اور وہ دونوں اپنی ہنسی دبانے میں ناکام دیکھنے لگی۔
یہ اس گھر کی صبح تھی چلو خوشیوں سے نہ سہی مگر سکون سے بھرپور اور محبت سے لبریز تھی اور پھر کس کو پتہ تھا کہ یہ گھر اور اس کو سکون اپنوں کے پیچھے اندھیروں میں ڈوب جائے گا اور تنہائیاں اس کا مقدر بن کر رہ جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
© uzma Parveen