...

22 views

پہاڑی لڑکی پارٹ 2
قارئین کرام! داستان محبت"پہاڑی لڑکی" کا دوسرا پارٹ حاضر خدمت ہے
موسم خزاں کے اوائل دن تھے۔صحن میں شام کی سائے اترنے لگے۔ فضاء میں حنکی بڑھنے لگی تھی۔ دعا گل رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی مگر کان مسلسل بیرونی دروازے کی دستک پہ لگی ہوئے تھے۔دعا گل گھر پہ اکیلی تھی کیونکہ ابو امی اور تائی جان کراچی چھوٹے چچا جان کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ جبکہ تایا جان باغات کی دیکھ بھال اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی نگرانی کرنے گئے ہوئے تھے۔ زریاب خان کے انٹرمیڈیٹ کے امتحان ختم ہو چکے تھے اس لیے وہ بھی آ ج کل باغات کی دیکھ بھال کے لیے تایا کے ساتھ
چلے جاتےتھے۔ہر طرف سرمئی اندھیرا چھا نے لگا۔ دعا گل کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ تایا جان تو روز اندھیرا چھا جانے سے پہلے گھر آ جاتے ہیں مگر آ ج اتنی دیر کیوں۔ جب وہ آ خری روٹی بڑے سے توے پہ ڈالنے لگی تو دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ روٹی توے پر ڈال کر مرکزی دروازے کی طرف بھاگی جیسے اس نے دروازہ کھولا سامنے تایا جان اور زیاب خان کھڑے ہوئے تھے مگر اس حالت میں کہ زریاب خان تا یا جان کے سہا رے کھڑے تھے اور چہرے پر شدید تکلیف کے آسار تھے۔د عا گل کے منہ سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی مگر تایا جان نے ہاتھ اٹھا کر اسے پرسکو ن رہنے کا اشارہ کیا۔تایا جان زریاب خان کو سہارا دیتے ہوئے مرکزی کمرے میں لے گئے۔ان علاقوں میں گھر اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ اک بڑا کمرہ ( جیسے ہمارے ہاں ڈرائنگ روم ہوتا ہے) ہوتا ہے اور اس کے چاروں طرف اس طرح کمرے بنائے جاتے ہیں کہ ہر کمرے کا دروازہ اور کھڑکی مکز ی کمرے میں کھلتا ہے ان کمروں کو بطور بیڈروم استعمال کیے جاتے ہیں۔اور مرکزی کمرے میں موسم سرما میں اک سائڈ پر لوہے کا چو لہا سیٹ کر کے اسے بطورِ کچن استعمال کیا جاتا ہے اور باقی کمرے میں قالین بچھا کر اس کو بطورِ ڈرائنگ روم اور ڈائننگ روم استعمال کیا جاتا ہے۔یہ طرزِ تعمیر موسم سرما کی شدت سے بچنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔کیونکہ موسم سرما میں یہاں شدید برفباری ہوتی ہے۔
دعا گل کی حالت زریاب خان کو دیکھ کر خراب ہو رہی تھی۔وہ جاننے کے لیے بے چین تھیں کہ زریاب خان کو ہوا کیا ہے۔
"دعا بیٹا"
تایا جان نے زریاب خان کو فرشی نشست پر لٹاتے ہوئے دعا گل کو پکارہ
"جی تایا جان"
دعا گل نے بے تابی سے کہا۔
"بیٹا جلدی سے زریاب کے لیے دودھ گرم کرکے لے آ ؤ"
"جی اچھا تایا جان" کہ کر وہ جیسے کچن کی طرف بھاگی توے پر ڈالی ہوئی روٹی جل گئ تھی۔اس نے جلدی سے روٹی توے سے اُتار دی اور کیتیلی میں دودھ ڈال کر گرم کرنے کے لے چولہے پر رکھ دیا۔
چچا جان نے دعا گل کی بےچینی محسوس کی
تو آہستہ سے دعاگل کے پاس آ ئے۔
دعا گل نے تایا جان کو دیکھ کر بے تا بی سے پوچھا
"تایا جان زریاب کو کیا ہوا"
"بیٹا ہمارے باغات کے ساتھ والے با غات کے ما لکان کی بیچ کسی بات پر جھگڑا ہوا ہم نے صلح صفائی کرنے کی کوشش کی لیکن بات بگڑ گئی اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی زریاب بیچ بچاؤ کر رہے تھے کہ اس کو کسی کے خنجرسےکٹ لگے"
"آ ہ" دعا گل نے اپنی چیخ روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
"یہ تو خدا کا شکر ہے کہ فوراً اس کو ہسپتال لے گئے اور بروقت مرہم پٹی کی وجہ سے زیادہ خون ضائع ہونے سے بچ گیا ۔ڈاکٹر نے کہا ہے کہ زخم بازوں پر ہے انشاللہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔اب بیٹا زریاب کی تیمارداری آ پ کی زمہ داری ہے"
"جی ٹھیک ہے تایا جان" دعا نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
تایا جان نے اس کے جھکے ہوئے سر پر پیار کیا اور زریاب خان کی طرف چل پڑے۔
دعاگل نے گرم دودھ گلاس میں ڈالا اور اس میں ہلدی شامل کرنے لگی۔

------ ------ -------
یہ رات دعا گل نے آ نکھوں میں کاٹی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔زریاب کی تکلیف کے خیال نے اسے بے چین کیا ہوا تھا۔اس کا درد وہ اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی
اس نے مرکزی کمرے کی جانب کھڑکی کھولی اور سامنے زریاب خان کی کمرے کی جانب دیکھنے لگی۔
اسے بچپن کا وہ دن یاد آیا جب وہ اور زیاب آ ٹھ سال کے تھے ۔وہ دونوں چشمے کے کنارے پتھروں سے چھوٹے چھوٹے گھر بنا رہے تھے۔
" زریاب تمھارا گھر بہت خوب صورت ہے مجھے تمھارا گھر چاہیے" دعا گل نے رشک بھری نظروں سے اس کے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"لیکن یہ تو میرا گھر ہے میں تمہیں یہ نہیں دے سکتا" زریاب نے نروٹھے پن سے کہا۔
دعا گل اک طرف منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔
"جاؤ پھر میں بھی تمھارے ساتھ نہیں کھلتی"دعانے ہونٹ بسور کر کہا۔
اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوں جھلملانے لگے۔
دعا گل زریاب سے لاکھ لڑتی، جھگڑتی، ضد کرتی، روٹتی مگر ان سب میں ایک چیز جس سے زریاب ہار جاتاہے وہ ہے دعا گل کے آ نکھوں میں موتی کی طرح چمکتے ہوئے آنسوں۔
"چلو دعا گل اک کام کرتے ہیں۔ہم اس گھر کو بڑا کرتے ہیں پھر یہ ہم دونوں کا گھر ہوگا"
دعا گل اس کی اس بات پر خوشی سے کھل اٹھیں۔
"دعا گل تم مجھے پتھر لا دو میں گھر کو بڑا کرتا ہوں"
دعا گل چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا کر لا تی گئ اک بار وہ کئی پتھر ساتھ ساتھ اٹھا کر لائی جیسے وہ زریاب خان کے پاس پہنچی اک پتھر اس کے ہاتھ سے پھسل کر زریاب خان کے ہاتھ پر گر گیااور اس کی ننھی اور نازک سی انگلی زخمی ہو گئی۔
وہ دونوں اک ساتھ روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔تائی جان اور امی ان کی طرف آ ئیں اور پوچھا کہ کیا ہوا تم دونوں کو
دونوں نے یک زبان کہا "چھوٹ لگ گئی"
اک لمحے کے لئے کسی کو سمجھ نا آ یا کہ چھوٹ کس کو لگی ہے کیونکہ دونوں رو رہے تھے
جب زریاب نے اپنی زخمی انگلی آ گے کی جس کو اس نے دعا گل کے چھوٹے سے ڈوپٹے میں چھپائ ہوئی تھی۔
تائی جان اور امی ان دونوں کے معصومانہ پیارو محبت پر ہنس پڑیں۔
دور کسی مسجد سے صبح کی آ ذان کی پرکیف آواز خاموش فضاء میں گونجنے لگی تو دعا گل ماضی سے حال میں واپس آ ئی۔اور وضو کےلیے پانی گرم کرنے کچن کی طرف چل پڑی۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

© Saba writes