...

7 views

تنہا کھڑا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں
تنہا کھڑا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں
ہجوم میں اِک میں اکیلا نہیں ہوں
کارواں کے سنگ کٹے ہیں میرا سفر
الگ بات ہے کہ سنگ چلا نہیں ہوں
گھائل قلب اِک میرا ہی نہیں ہوا
فقط میں اب تلک سنبھلا نہیں ہوں
عقل کا اہل ہوا کرتا تھا کبھی
سمجھداروں میں بیٹھتا نہیں ہوں
کہیں دل اب میرا لگتا ہی نہیں
ایک جگہ اسلئے ٹھہرتا نہیں ہوں
تُم میرے زوال کا ہو سبب و وسیلہ
تمہیں کُچھ مگر کہہ سکتا نہیں ہوں
ایک ہی ہنر تو نہ تھا مُجھ میں ساحل
شاعری کے سوا کچھ کرتا نہیں ہوں

© Ahmed Sahil