...

8 views

وُہ مجبور تھے
یکّے بعد دیگرے آتے گئے، پیار ہم پر برساتے گئے
قسمیں وعدے احساسِ مخلصی ہم پر لُٹاتے گئے

سوچتا ہوں! کتنے مجبور تھے وہ لوگ رُخ بدلنے کو
جو آزمائش سے گزر کر بھی ساحل کو آزماتے گئے

غلطی نظر میں آتی نہیں، مُحبّت میں غلط رہ کر
کیا نظر تھی وفاداروں کی! کیا ہی مثال بناتے گئے

ہم کیوں کریں شکایات میاں! اُلفت سے لاچاری کی
علم بخش سودا ہے سو ہم علم بڑھاتے گئے

وہ سب اپنے اپنے معاملات میں درست تھے
مجبور تھے فقط! اپنی مجبوریاں ہی نبھاتے گئے

آپ بھی حسبِ روایت لگائیے، توڑیے اور چلے جائیے
دل! جیسے مہربانِ ساحل توڑ کر جاتے گئے

© Ahmed Sahil