...

5 views

جی ‏نا ‏جلایا ‏کر۔۔۔۔۔
جی نا جلایا کر ،
جو ہے بتایا کر ۔
مے ہوں کس واسطے دنیا مے ،
مجھے احساس دلایا کر ۔
اندھیری رات مے ہر سو ،
تو جگنو بن کے چھایا کر ۔
تجھے لازم نہی تکلیف ،
تو خوابوں مے نا آیا کر ۔
مے کہنا بھول جاتا ہوں،
مجھے کہنا سکھایا کر ۔
مجھے جانا ہے پھر ،جاناں!
تو در تک چھوڑنے آیا کر ۔
مے جاں سے کھیل جاؤ گا ،
تو ہمّت تو دلایا کر ۔
جو مے سب کھ چکا رنج مے ،
تو وہ سب بھول جایا کر ۔
تصادم ہی تصادم ہیں،
تو دل کی نگری آیا کر ۔
مے جب گانے لگو دھن مے ،
تو مل کے گنگنایا کر ۔
میری غزلیں،میری نظمیں،
کبھی آ کر سنایا کر ۔
مے تارے گننے جب بیٹھو ،
تو کسمت آزمایا کر ۔
بڑے ارماں ہیں اس دل میں،
تو آیا کر ،بجھایا کر ۔
مے صادق ہو نہیں اتنا ،
تو باتوں مے نا آیا کر ۔
یہ سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں،
تو قسمیں نا دلایا کر ۔
ابھی وہ ساتھ ہے حمزہ ،
تو بس خوشیاں منایا کر ۔
حمزہ علی ۔
© my philosophy.