...

3 views

میں ‏اک ‏گاؤں ‏کی ‏لڑکی
میں اک گاؤں کی لڑکی
بہت ہی عام سی لڑکی
کہا تھا
میری اماں نے
جدائی ریت ہے پکی
تجھے نازوں سے پالا ہے
مگر اک دن
خود سے الگ کرنا ہے
مجھے یاد ہے اب بھی
مجھ بن سوتی نہیں تھی ماں
اور اب
کبھی جو رات میں
آنکھ کھڑکے سے کھل جائے
میری چارپائی کو تکتی ہے
مجھے اکثر پکارتی ہے
مگر یہ بھول جاتی ہے
کہ مجھکو الگ کیے
عرصہ ہو گیا اب تو
میں اب جاؤں تو لگتا ہے
بدل گیا ہے میرا گاؤں
یا پھر
میں ہوں
جو بدل گئی ہوں
میں جاتی ہوں تو میری ماں
میرے نخرے اٹھاتی ہے
جب وہ مسکراتی ہے
میں کھل کر مسکراتی ہوں
جب لوٹوں تو لگتا ہے
اچھی بیٹی نہیں ہوں میں
تبھی تو ماں کی آنکھوں میں
آنسو چھوڑ آتی ہوں
بہت کمزور ہوں میں تو
مگر مضبوط رشتے ہیں
میں اک گاؤں کی لڑکی
بہت ہی عام سی لڑکی

مریم ریاض
© مریم ‏ریاض