...

9 views

ماضی

© Ayat
اک سہانی رات کو میں آخرکار
بیٹھا تھا ہاتھوں میں قلم کتاب لیکر

تیرے چند عہدو پیماں لیکر
اپنی بچپن سے جوانی لیکر

آنسو گرے ٹوٹ کے جس پر
پھر یاد کی انگلی پکڑ کر

میں چل دیا ماضی کے پنوں پر
آہو رسم بھی خوب نبھائی مل کر

ادھورے سچے قصے سن کر
حال میں آیا سرد آہ لیکر

لفظ جدائی موت تراشے کاغذ پر
بیٹھ گیا دریا کنارے وہ کاغذ لیکر

نجانے کتنے پل سمٹے لہروں پر
وہ اذیت، غمزدہ سسکیاں لیکر