...

1 views

قسط2
قسط 2
عید کا پس منظر
از اسیر شکیل
آئیے اب عیدین کے پس منظر پر ایک نظر دوڑائیں۔
ظہور اسلام کے ایک عرصہ بعد جب ہجرت کا عظیم واقعہ رونما ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ وہ سال میں دو دن تہوار(غیر اسلامی ) مناتے ہیں۔ آپ(ص) نے دریافت فرمایا : یہ دو دن کیسے ہیں؟ اہل مدینہ نے بتایا یہ دو دن ہماری مسرت اور خوشی کے دن ہیں۔ ہم ان دنوں میں کھیل کود کرتے ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم کو یوم الاضحٰی اور یوم الفطر کے دو دن عطا فرمائے ہیں جو تمہارے کھیلنے کودنے اور خوشی منانے کے ان جاہلیت کے دنوں سے بہتر ہیں۔ اس طرح حضرت شارع نے اپنے اس فرمان سے عہدِ جاہلیت کی یادگار تقریباب و رسومات کا یکسر قلع و قمع فرما کر اہل مدینہ و تمام مسلمانوں کو ’’عیدین سعیدین ‘‘ دو بابرکت عیدوں۔۔۔ کا تحفہ عطا فرمایا
آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے دو عیدوں کا تہوار مناتے ہیں جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقوام عالم امت مسلمہ کے اس تہوار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ بچہ ہو یا بڑا ؛ عید کی تیاری میں جوش و خروش کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ خواتین اور بچوں کی تیاری تو قابل دید ہے۔ عید کی تیاری میں نت نئے لباس و دیگر لوازمات کی خریداری دیکھنے کو آتی ہے جو ایک زندہ قوم کی روح رواں کے طور پر سامنے آتی ہے۔آئیے ان عیدین کے بارے میں مختصراً جاننے کی کوشش کریں
عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں عید اور الفطر سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے ۔ عود عادً یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا واپس ہونا ، پھر آنا چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو عید کہتے ہیں۔
فطر کے معنی کس کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:
رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے ۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادی کے ان افراد کو بھی صدقۃ الفطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے یہ تہوار اسلام کے مزا ج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اورعبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ عاقل و بالغ اور تندرست مسلمان مہینہ بھر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تراویح میں قرآن پا ک سنتے ہیں۔ مسلمان ماہ رمضان میں تلاوت قرآ ن حکیم کا بالخصوص اہتمام کرتے ہیں۔
یوں ماہِ رمضان کے انتیس یا تیس دن گزرنے کے بعد اپنی عبادت و ریاضت اور ماہِ مبارک کی برکت و سعادت حاصل کرنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں ۔ عید کے دن علی الصبح اٹھ کر غسل کرتے ہیں چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھا کر بلند آوازسے تکبیریں پڑھے ہوئے ’’ اﷲ اکبر اﷲ اکبر لاالہ الااﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد ‘‘ کہتے ہوئے بوڑھے بچے، جوان سب عید گاہ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ شہر ہوں یا دیہات ہرجگہ مسلمان مرد و زن اور چھوٹے بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ کپڑے پہنے ، آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور لیے نظر آتے ہیں۔ فضائیں تحمید و تقدیس اور تکبیر و تہلیل کی روح پرور صداؤں سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے لیے مسلمانوں کے اجتماعات ملی شان و شوکت کے نئے ولولے پیدا کرتے اور’’ شکو ہ ملک و دیں‘‘ کے دلنواز مناظر ، قلب و نظر کی تسکین و تمکین کا باعث بنتے ہیں۔
یوم عید کے اکثر اعمال مسنونہ سے اس عقیدے کا اظہار ہوتا ہے کہ عظمتوں کے تمام پہلو اور کبریائی کی تمام صورتیں صرف خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان ہیں۔ کبریائی اسی کی ذات کی زیبائی اور عظمت وجبروت اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہیں۔ عید الفطر کے روز عیدگاہ جاتے ہوئے سب کے سب بلند آواز سے تکبیریں کہتے ہوئے جانا صلوۃ العیدین میں زائد تکبیریں پڑھنا اور پھر خطبہ عید میں متعدد بار ان تکبیروں کا دہرایا جانا محض اس لیے ہوتا ہے کہ توحید الٰہی اور مساوات اسلامی کا تصور مسلمانوں کے دلوں میں رج بس جائے ۔
دوسری عید کا نام عیدالاضحیٰ ہے جو ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو پورے عالم اسلام میں منائی جاتی ہے یہ عید عید الفطر کے دو ماہ دس دن کے بعد آتی ہے اس عید کے ایک دن پہلے تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ میں حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں،، الضحیٰ،، کے معنی قربان کے ہیں اسلئے اس عید پہ مسلمان بھیڑ،بکرا یا اونٹ وغیرہ کی قربانی کر کے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں
یہ دونوں عیدیں مسلمانوں کے خوشی کے تہوار ہیں ۔
جب بھی میں لفظ عید سنتا ہوں مجھے وہی بچپن کی عید آنکھوں کے سامنے آتی ہے ۔لیکن گزشتہ عید کے کچھ ناسازگار منظر نے مجھے یہ سب لکھنے پہ آمادہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو میں نے اپنے دیہات سے دور پردیس میں گزاری جہاں عید ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔
اگلی قسط کے لیے کمنٹ کریں