...

1 views

Out of country Job
یہ بات ہے ان دنوں کی جب پاکستان کے حالات ایسے خراب تھے جیسے مسجد میں مولوی صاحب کے شاور کی ٹوٹی خراب ہوتی ہے اور اسی ٹوٹی پھوٹی قسمت کے تحت نوکری ملنا تو دور یہاں راستہ ملنا مشکل ہو چکا تھا کیونکہ روز ایکسیڈنٹ اور خون خرابے چوری ڈکیتی اور قتل وغیرہ کی خبریں سن سن کر سب کو بلڈ پریشر کا مسلہ بن چکا تھا گھر میں موجود بزگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے بیٹھے ہی کافی بار اللہ کو پیارے ہوتے ہوتے بچے کیونکہ انکو میری شادی کے بعد میرے پیارے پیارے بچے کھیلانے تھے خیر ملک کے حالات سے تنگ آکر گھر والے مجھ سے اور ملک کے حالات کی وجہ سے بہت تنگ تھے کیونکہ ملک میں حکمرانوں کو مہنگائی بلکل ایسے ہی نظر نہیں آتی جیسے Hunda 125 والوں کو سپیڈ بریکر نہیں نظر آتے۔ والد صاحب نے اپنی جمع پونجی کو ذہن میں رکھتے ہوۓ کچھ دن بعد مجھے باہر کے ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اب میرا وہ خواب سچا ہونے جا رہا تھا جب کالج میں استاد کہتے تھے چل باہر اور میں آگے سے مسکرا کر کہتا تھا (لیاؤ ویزا) تو جناب Leao Visa کمپنی سے میرے والد صاحب نے میرے ویزے کا پتہ کیا تو انہوں نے بولا کہ محترم فلحال تو ویزا نہیں لیکن جیسے ہی کوئ اچھا سا ویزا آیا میں آپ کو اطلاع کر دوں گا گھر آتے ہی والد صاحب نے مجھے بولا آجاؤ میرے ساتھ اب میرے ذہن میں یہ بات تھی کے مجھے کوئ ٹریٹ ملنے والی ہے لیکن افسوس مجھے ٹریٹ بلیڈ والا مل گیا والد صاحب مجھے اپنے محلے کے سب سے سستے نائ کے پاس لے گۓ اور بولے کے اسکی ٹنڈ کر دو اسے کوئ ہوش آۓ میں غصے سے آگ بگولا ہو گیا اور جیسے ہی میں اٹھ کے دوکان سے باہر جانے لگا پیچھے سے ایک زور دار آواز آئ ویزا کینسل بس یہ سنتے ہی میں بے ہوش ہو گیا لیکن جب ہوش آیا تب تک میرے بالوں کے ساتھ میرے ہوش بھی اوڑ چکے تھے اور سب سے بڑی افسوس ناک بات تو یہ تھی کے اگلے دن مجھے پاسپورٹ بانوانے جانا تھا صبح اٹھتے ہی میں نے نہانے جانے کیلئے صابن اور شیمپو اٹھایا تو والد صاحب مجھے گھور کے دیکھ رہے تھے اور میں انکی جانب دیکھ رہا تھا بل آخر وہ بول پڑے کہ ( بال تو تمہارے ہے نہیں تو پھر یہ شیمپو کس لیے) میں انکی طرف انگلی کر کے بولا (سمجھ رہے ہو)👉🏻
بس اتنا کہتے ہی میں نہانے چلا گیا۔ ٹھیک 1:45 منٹ کے بعد جب میں باہر آیا تو کپڑے ڈالنے کے بعد جب میں نے شیشہ دیکھا تو میں Poran ویڈیوز کا جونی سینس لگ رہا تھا والد صاحب نے مجھے اب ایک ایسی مشکل میں ڈال دیا تھا کہ جو میں بتا نہیں سکتا جو آپ کو آگے جا کر خود ہی پتہ چل جاۓ گی تو میں اپنے گھر سے اپنے والد صاحب کے ساتھ بائک پہ پیچھے بیٹھ کے پاسپورٹ اوفس کی طرف روانہ ہوا صبح صبح کا وقت تھا اور میرے نعرے فزا میں گونج رہے تھے جس طرف سے بھی ہم گزر رہے تھے چھوٹے بچے مجھے گنجا گنجا کہ کے نعرے لگا رہے تھے اور جب ہم مین روڈ پر پہنچے ٹریفک جام لگا تھا اور بائک کا پٹرول ختم ہوگیا سارے بچے اپنے سکول کی طرف جا رہے تھے لیکن جیسے ہی انکی نظر میرے پہ پڑی سب نے اسی طرح ہی نعرے لگانا شروع کر دۓ میں نے بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کیا پاس ہی پٹرول پمپ تھا جب ہم ادھر پڑرول ڈلوانے کیلئے روکے تو اچانک ہی میری لیفٹ سائڈ پہ ایک خوبصورت حسن و جمال رکھنے والی سندر لڑکی نے بھی بائک کھڑی کر دی جیسے ہی اس نے ہیلمٹ اتارا تو میرے نیچے سے (70Seventy)نکل گئ کیونکہ یہ وہ لڑکی تھی جسکا ہم نے 4 دن پہلے پیچھا کیا تھا اور اسکے بھائ نے ہمیں پیچھے سے روڑے بھی مارے تھے وہ تو قسمت اچھی تھی کہ بس بائک کی بیک لائٹ ہی ٹوٹی تھی کوئ ہڈی نہیں لیکن ٹنڈ کا فائدا یہ ہوا کہ اس نے مجھے پہچانا نہیں اس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور میری ایک دو pics کے بعد میری ویڈیو بنانا شروع کر دی میں اسکی طرف ایک نظر دیکھ کے اس (70Seventy)کی طرف چل دیا جو میرے نیچے سے نکلی تھی والد صاحب نے بولا اوے جلدی چلو میں شیخ رشید کی طرح بھاگ کے بائک کے پیچھے بیٹھا تو میرے والد صاحب نے سیدھا پاسپورٹ اوفس کے سامنے ہی بریک لگائ بائک پارک کر کے جیسے ہی اندر داخل ہوۓ تو انہوں نے ہمیں انتظار کرنے کا بولا میں نے ٹائم پاس کیلئے جیب سے موبائل نکالا تو میں یہ دیکھ کہ حیران رہ گیا ہر طرف میری Memes The Rock V's jock جیسی میمز ٹاپ پہ رینک کر رہی تھی اور TikTok, Snapchat, snack video, Instagram search , Twitter, Facebook, اور Slow mo بن چکے تھے میں نے والد صاحب کی طرف گھور کے دیکھا اور دل میں ہی ان پہ سارا غصہ نکالا کیونکہ اگر میں حقیقت میں ان پہ غصہ نکالتا تو اس بار سچ میں میرا ویزا کینسل ہو جانا تھا میرے والد صاحب بہت جذباتی ہیں اسی لیے میں جلدی پیدا ہو گیا۔ لہذا میں نے اسی چیز کو اپنا پیشن بنا لیا میری ایک Selfi upload کرتے ہی لوگوں نے مجھے Like , comments, share اور tag کرنا شروع کر دیا اتنی دیر میں جب میری باری آئ تو جس میڈم نے میری انفارمیشن لینی تھی وہ مجھے غصے سے دیکھنے لگ گئ کیونکہ تھوڑی دیر پہلے جس لڑکی نے کمنٹ میں مجھے جوکر بولا تھا اور میں نے اسکی ماں بہن ایک کی تھی یہ وہ ہی میڈم تھی لیکن اس نے اپنی Profile صادق کے نام سے بنائ ہوئ تھی مجھے اس بات کا علم تب ہوا جب وہ مجھے اندر لے گئ میں اس وقت اپنے آپ کو حقیقت میں جونی سینس ہی سمجھ رہا تھا اندر جاتے ہی جب دیکھا تو سامنے صادق صاحب ہلا رہے تھے ٹانگ کو یہ میڈم انکی سیکرٹری تھی اور انکا سارا کام کنٹرول کرتی تھی اس نے اندر جاتے ہی صادق صاحب کو بولا کہ یہ آپ کے گھر والوں کی تعریف کر رہے تھے اور اس نے میری درج کردہ تعریف انکو دیکھا دی وہ بہت غصہ ہوۓ لیکن بڑے ہی شریف انسان تھے انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا بس 500 والا کام 750 میں کر کے دیا 3:45 منٹ ذلیل کیا اور ٹھیک 10 دن بعد مجھے میرا پاسپورٹ مل گیا۔دوسری جانب سے کلائنٹ کی بھی کال آگئ کے ایک اچھا ویزا آپکا انتظار کر رہا ہے آکے لے جائیں ۔ویزا لانے کے بعد ہر طرف اعلان کر دیا گیا کہ ہمارا بیٹا باہر کے ملک نوکری کرنے جا رہا ہے ۔ 13 دن بعد میری فلائٹ تھی ہم نے ساریاں تیاریاں پوری کر لی گھر والوں نے ادھار پیسے لے کے یہ سب کیا تھا اور انکو مجھ سے بڑی امیدیں تھی جو امیدیں انکو مجھ سے تھی میں ان سب کو پورا کرنا چاہتا تھا مجھے روز ہی سبکے کال میسج وغیرہ آتے کے ادر جا کے ہمیں بھول تو نہیں جاؤ گے میں بس یہ ہی بولتا کہ نہیں ایسا ویسا کچھ نہیں میرے لئے میرا سب کچھ آپ لوگ ہی ہیں مجھے ایسا لگتا تھا کے یہ سارے مجھ سے پیار کرتے ہیں لیکن انکا یہ پیار جب پیسوں کی ضرورت ہو یا کوئ اور چھوٹا موٹا کام ہو تو چھپ جاتا تھا آخر ایسا کیوں لیکن یہ پیار بھی پیار تھا جب گھر میں صورتحال کچھ ایسی تھی کے لاکھوں امیںدیں لے کر جب قریبی لوگوں سے رابطہ کیا جاتا تو یہ ہی جواب ملتا کہ رابطہ ممکن نہیں برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کریں اسی کوشش میں جب خدا کی مہربانی سے قدرتی طور پہ کام پورا ہو جاتا تو پھر سے انکے داعوے شروع ہو جاتے کہ کوئ کام ہو تو ہمیں ضرور بتانا لیکن یہ بھی انکا پیار تھا کسی کو جھوٹے خوابوں میں ڈوبا کے اسے کنارا نا دینا کسی کو سبز باغ دیکھا کے اسے سہارا نا دینا یہ بھی انکا پیار تھا ۔ خیر جب 3 دن بچے تو بچے بڑے بوڑھے سمیت سارے خاندان کے رشتہ دار مہمان آنے لگے 7 ، 6گھنٹے ہمارے ساتھ گزارنے کے بعد اپنی شلوار والی جیب سے 7 ، 6فٹ کی لسٹیں نکال کے دینا شروع کردی جس پہ پورے پورے جہیز کا سامان لکھا ہوا تھا اور نصیحتوں میں سب سے مین نصیحت یہ تھی کہ بیٹا یہ لسٹ نا گمانا یہ سامان یاد سے لیتے آنا اودر سے سستا ملتا ہے پاکستان میں چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ خیر جی کرتے کراتے جس دن ہم نے ائر پورٹ پہ جانا تھا اور میری فلائٹ تھی تو میرے دوستوں نے گاڑی منگوائی ہوئ تھی گاڑی میں گانوں کی جگہ انہوں نے اپنے Iphone کی ہائ ڈیمانڈ والے ریپ لگا دۓ جوکے انہوں نے پچھلی رات کو Pizza club میں ٹیبل بجا کے ریکارڈ کیا تھا میں نے تنگ آکر اپنی جیب سے جب موبائل نکالا تو مجھے سارے Sochail media accounts پہ Verification Blue tick 🔵 مل چکی تھی میرے دوستوں نے جیلس ہو کر بولا کہ یار ہم 3۔ 3 سال سے TikTok بنا رہے ہیں لیکن ہم وائرل نہیں ہوۓ تو نے ایسا کیا کیا کے تو اتنا وائرل ہو گیا میں نے بولا کہ میرے والد صاحب نے میری ٹنڈ کروائ اور میں وائرل ہو گیا بس یہ بات سنتے ہی ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئ کے وائرل ہونے کیلئے ٹنڈ کروانا لازمی ہے Air port پہ اترتے ہی انہوں نے مجھے بڑے ذوق و شوق سے روانا کیا اور دوعا کی کہ اللہ کرے تم ہمارے لئیے Iphone لے کہ آؤ اور آمین بولے بنا ہی ٹنڈ کروانے بھاگ گۓ اور ابھی فلائٹ میں 20۔ 25 منٹ باقی تھے میری والدہ اور والد نے نم آنکھوں کے ساتھ مجھے کچھ ذمہ دذریاں سومپی اور مجھ سے کچھ واعدے کیے اور دل کی ساری باتیں بول دی اور بولے کہ اولاد چاہے جتنی مرضی دور ہو ماں باپ کے دل سے دور نہیں ہوتی اور کہا کے جلدی گھر آنا میں مسکرا کر بولا کے میں کون سا ہمیشہ کیلئے جا رہا ہوں دنیا بہت بڑی ہے بس کام کی غرض سے جا رہا ہوں جلدی واپس آجاؤ گا بس پھر خدا حافظ بول کر سفر شروع کیا خدا کو یاد کیا اور جب جہاز میں بیٹھ کے کھڑکی کی جانب دیکھا تو میری ماں کی اور باپ کی آنکھیں آشک بار تھی یقیناً وہ اپنی آنکھوں میں لاکھوں سوال لئے کھڑے تھے اور اپنا سب کچھ بہا کر مجھ سے لاکھوں امیدیں جوڑے بیٹھے تھے میرے دل میں بھی انکے لیے کافی کچھ تھا لیکن اگر میں وہ سب بولتا تو شائد آج میں ادھر نا ہوتا کوئ بھی ماں باپ یہ نہیں چاہتا کہ انکی اولاد انکی آنکھوں سے دور ہو لیکن میں مجبور تھا مجھے یہ سب کرنا تھا اور میں نے یہ سب کیا جیسے ہی میں اپنی منزل تک پہنچا اور اس سرزمین پر پاؤں رکھا تب مجھے پاکستان کی یاد آئ اس مٹی میں اور پاکستان کی مٹی میں کیا فرق ہے یہ میں جان چکا تھا۔ اُس سرزمین پہ رہنے کے باوجود اس میں اپنا پن نہیں تھا جس جگہ اب میں موجود تھا وہاں نا کوئ اپنا نا کوئ دکھ سکھ پوچھنے والا لوگوں کی بھیڑ تھی لیکن میں ان سب میں اکیلا تھا جیسے کوئ پرایا ہوتا ہے بات کرتا بھی تو کس سے کرتا کوئ مجھے جانتا نہیں تھا سارے کام خود کرنے میں مشکلات کے علاواہ اس جگہ آزادی نہیں تھی کھانا وہ نہیں تھا جو ہمیں روز پاکستان میں ملا کرتا تھا قانون کے خلاف ورزی نہیں تھی جو کہ بہت ہی اچھی چیز تھی ان سب چیزوں کے باوجود یہ جگہ پر سکون تھی میں اپنے گھر والوں کو روشن مستقبل دلانے کیلئے کافی کچھ کھو چکا تھا جن کے بنا ایک پل نہیں تھا گزرتا انکو دیکھے کئ سال بیت چکے تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جن سے ہم پھر کبھی مل ہی نہیں سکے خواہشات اور خوابوں کا گلا گھونٹ کر ہم نے اپنی زندگی کا کچھ عرصہ گھر والوں پہ قربان کردیا جس چیز کو ہم نے آسان سمجھا وہ اصل میں اتنی آسان نہیں تھی یہ ایک ایسا میشن تھا جس میں کامیابی کے بعد اتنے آنسو گرے کے انکا حساب لگانا ممکن نہیں وہ لوگ جو آج سکون سے زندگی گزار رہے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ اپنی آنے والی نسل کیلئے کچھ ایسا کر جاؤ جس سے انکی زندگی پر سکون گزرے ورنا اللہ نا کرے انکو بھی در بدر گھومنا پڑے گا جو کہ بہت ہی زیادہ مشکل ہے اور اگر آپ انکے لئے کچھ اچھا کر جاۓ گے تو وہ آپ کو دوعائیں دے گے اور آپکی مثالیں دیں گے۔

This content
Is
Created by HamzaHK

© Killer boy