چائے ٹھنڈی رہ گئی
"خرد۔۔۔۔۔۔۔خرد ۔۔۔۔۔۔، کہاں ہو یار؟ کب سے آوازیں دے رہا ہوں"۔
"جی آئی" وہ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی کمرے میں داخل ہو۔
"تمہیں کہا ہے نہ میں نے کہ، میں جب تک دفتر جانے کے لئے تیار نہ ہو جاؤ کہیں مت جایا کرو، ایسے تمہیں بار بار آواز دینی پڑتی ہے جو کہ تم ایک بار میں سنتی نہیں ہو"۔
"وہ۔۔۔۔۔یاسر۔۔میں بی جان کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی، آپکو تو پتہ ہے وہ ابھی ناشتے کے لیے آتی ہی ہونگی"۔اس نے تولیہ رکھکر اسے گھڑی اور گاڑی کی چابی تھماتے ہوئے کہا جو سامنے ٹیبل پر موجود تھیں لیکن وہ یاسر ہی کیا جو ہل کر پانی بھی پی لے۔
"اور آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔....."
یاسر کو خود کی طرف گھورتا پاکر ، اُسنے گھبرا کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔
"ہاں تو۔۔۔۔اگر میری ماں کے تھوڑے بہت کام کر لیتی ہو تو احسان جتانے کے ضرورت نہیں ہے، تمھارا فرض ہے یہ، اپنے گھر میں اپنی امّا کے لیے نہیں بناتی تھی کیا۔۔۔۔۔۔۔ساس بھی ماں جیسی ہوتی ہے اگر سمجھا جائے تو لیکن تمنے تو آج تک بی جان کو ساس نہ سمجھا ماں تو دُور کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔،اس سے اچھا تو یہ تھا کہ میں اس سہرش سے ہی شادی کر لیتا۔۔۔کم از کم اپنی ماں کے کام کے لیے تم پر منحصر تو نہیں ہونا پڑتا نہ"۔
اُسنے ایک ہاتھ میں کوٹ تھاما اور دوسرے سے چابی لیکر بڑبڑاتا ہوا نکل گیا",زندگی عذاب بنا دی ہے میری۔۔۔۔جب دیکھو رونی صورت لیکر حاضر ہو جائیگی۔، اس نے اس کے رونے پر چوٹ کی۔
*️⃣*️⃣*️⃣*️⃣*️⃣
پیچھے وہ سن کھڑی ره گئی۔ وہ روزآنہ اسے کسی نے کسی وجہ سے ذلیل کرتا رہا ہے، لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج پہلی دفعہ اُسنے سحرش کا ذکر کیا تھا۔ گیا وہ سے شادی کرکے پچھتا رہا ہے۔ اس نے خاموشی سے اپنے آنسو صاف کئےاور بی جان کے پاس چلی آئی۔ انہیں سلام کیا اور انکا بستر صحیح کرنے لگی۔
"خرد"
"جی"
"یہ تمہاری آنکھیں اتنی سرخ کیو ہو رہی ہیں؟تم روئی ہو نہ؟ یاسر نے پھر کچھ کہا ہے,ڈانٹا ہے اُسنے تمہیں؟" بی جان نے تفتیشی انداز میں یک کے بعد دیگر سوال کیے۔
ایک پل کے لیے اُسکے ہاتھ رکے،...
"جی آئی" وہ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی کمرے میں داخل ہو۔
"تمہیں کہا ہے نہ میں نے کہ، میں جب تک دفتر جانے کے لئے تیار نہ ہو جاؤ کہیں مت جایا کرو، ایسے تمہیں بار بار آواز دینی پڑتی ہے جو کہ تم ایک بار میں سنتی نہیں ہو"۔
"وہ۔۔۔۔۔یاسر۔۔میں بی جان کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی، آپکو تو پتہ ہے وہ ابھی ناشتے کے لیے آتی ہی ہونگی"۔اس نے تولیہ رکھکر اسے گھڑی اور گاڑی کی چابی تھماتے ہوئے کہا جو سامنے ٹیبل پر موجود تھیں لیکن وہ یاسر ہی کیا جو ہل کر پانی بھی پی لے۔
"اور آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔....."
یاسر کو خود کی طرف گھورتا پاکر ، اُسنے گھبرا کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔
"ہاں تو۔۔۔۔اگر میری ماں کے تھوڑے بہت کام کر لیتی ہو تو احسان جتانے کے ضرورت نہیں ہے، تمھارا فرض ہے یہ، اپنے گھر میں اپنی امّا کے لیے نہیں بناتی تھی کیا۔۔۔۔۔۔۔ساس بھی ماں جیسی ہوتی ہے اگر سمجھا جائے تو لیکن تمنے تو آج تک بی جان کو ساس نہ سمجھا ماں تو دُور کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔،اس سے اچھا تو یہ تھا کہ میں اس سہرش سے ہی شادی کر لیتا۔۔۔کم از کم اپنی ماں کے کام کے لیے تم پر منحصر تو نہیں ہونا پڑتا نہ"۔
اُسنے ایک ہاتھ میں کوٹ تھاما اور دوسرے سے چابی لیکر بڑبڑاتا ہوا نکل گیا",زندگی عذاب بنا دی ہے میری۔۔۔۔جب دیکھو رونی صورت لیکر حاضر ہو جائیگی۔، اس نے اس کے رونے پر چوٹ کی۔
*️⃣*️⃣*️⃣*️⃣*️⃣
پیچھے وہ سن کھڑی ره گئی۔ وہ روزآنہ اسے کسی نے کسی وجہ سے ذلیل کرتا رہا ہے، لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج پہلی دفعہ اُسنے سحرش کا ذکر کیا تھا۔ گیا وہ سے شادی کرکے پچھتا رہا ہے۔ اس نے خاموشی سے اپنے آنسو صاف کئےاور بی جان کے پاس چلی آئی۔ انہیں سلام کیا اور انکا بستر صحیح کرنے لگی۔
"خرد"
"جی"
"یہ تمہاری آنکھیں اتنی سرخ کیو ہو رہی ہیں؟تم روئی ہو نہ؟ یاسر نے پھر کچھ کہا ہے,ڈانٹا ہے اُسنے تمہیں؟" بی جان نے تفتیشی انداز میں یک کے بعد دیگر سوال کیے۔
ایک پل کے لیے اُسکے ہاتھ رکے،...