...

8 views

یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یاد ماضی غزاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے میرا حافظہ

آج کچھ دل میں بوجھ محسوس ہوا سوچا کیوں نہ قلم اور ورق کو مدعو کیا جائے تاکہ بوجھ میں ہلکان محسوس ہو ۔آپکو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں کوئی انشاء پرداز مصنف یا کوئی اعلیٰ قسم کا مضمون نویست نہیں ہاں کچھ خیالات نے یوہی قلب کے کسی گوشے میں دستخط دی اور میں لکھنے میں مگن ہوگیا
آج عید کا تہوار تھا بڑے جوش و خروش سے ملت اسلام نے عید منائی ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم کبھی منایا کرتے تھے عید گاہ سے نکلتے ہی چہل پہل ،پٹاخے ،دوڑ بھاگ ،ایک دوسرے کو بلند بانگ لہجے میں مبارکبادی گلے ملنا دوست احباب رشتہ دار کو ایک دوسرے کے دولت خانے میں مدعو کرنا
آج بغور خود اپنی آنکھوں سے اس منظر کی دید کی جس سے ماضی کی یادوں کا ایک سیلاب ٹھا تھے مارتا ہوا ذہن کے گوشوں میں رقص کرتا ہوا قلم کی نوک سے باہر آ ٹپکا جی ہاں عید تو وہی ہوا کرتی تھی جو ہم پچپن کی حسین دلکش دل فریب ماحول میں منایا کرتے تھے والدین کی آغوش میں جب زمہ داریوں سے بالاطاق تھے کھیلنا کودنا یاروں کے ساتھ پورا دن گزارنا ہی ہماری سب سے بڑی زمہ داری تھی اور پھر والدین کا پیار و محبت ایک انمول اور ناقابل فراموش خزانہ تھا جس کی سراہنا کرنا میری ذہانت کے برعکس ہے

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از اسیر شکیل
© اسیرٓ ‏شکیل