یارانہ پارٹ 2
پارٹ 2
اسی وجہ سے سمیر چپ رہا کیونکہ غلطی سمیر کی تھی ۔ ارے اب تم مجھے اندار آنے کی اجازات بھی نہیں دو گے ایسی بات نہیں ہے اندار آجاو سمیر اپنے سامان کا بیھگ لے کر اندار آگیا سمیر ارحم کے لیے چاے بنانے گیا اور ارحم سناو کیسے ہو؟ میں ٹیھک ہو تو سنا میں بھی ٹیھک ہو ارحم نے سمیر سے پوچھا کیا کرتے ہو آج کل ؟ میں پارٹ آف جوب کرتا ہو ۔ کونسی ؟ سمیر نے کہا کہ وہ ہوٹل میں منیجر کے ساتھ ہوتا ہے۔ سمیر نے ارحم کو چاے دی اور ساتھ میں کچھ ڈرای فروٹ دے کیونکہ سردیوں کا موسم تھا۔ سمیر نے ارحم کا بیھگ اٹھا کر اس کے کمرے میں رکھ دیا۔ اور ارحم امی ابو کیسے ہیں؟ امی ابو ٹیھک ہیں ۔ اور بہن کیسی ہے؟ وہ بھی ٹیھک ہیں۔ اچھا اب تمہیں ریسٹ کرنا چاہیے تم تھک گے ہو گے۔ صیح کہا مجھے ارم کرنا چاہیے ۔ اب ناشتے کے وقت ملے گے صبح کے 6 بجے تھے اور ناشتا 10 یا 11 بجے ہی بنایا جاتا تھا کیونکہ بڑے شہروں میں سب لوگ لیٹ سوتے اور لیٹ اٹھتے ہیں۔ سمیر ساڑھے دس بجے اٹھا اور فریش ہوا نیچے آیا اور ناشتا بنانے لگا۔ اتنے میں ارحم بھی اٹھ آیا۔اسلام علیکم سمیر ، وعلیکم السلام ارحم،
کیا بنا رہے ہو سمیر بھائی؟ آملیٹ اور پرٹہ ۔ بھائی آپ سے بات کرنی تھی ارحم نہایت ہی احترام سے بولا ادھر سمیر سمجھ گیا ضرور کوئی اہم بات ہے ۔ ہاں بولوں سن رہا ہو ۔ بھائی امی جان اور ابو جان چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ رہے ۔ اور ویسے بھی آپ یہاں اکیلے ہے۔ اور وہاں ہم پریشان رہتے ہیں خاص طور پر امی جان ۔۔۔۔
آپ ہمارے ساتھ آئے وہی پڑھائی کر لینا اور آرمی میں جانا چاہتے ہے تو آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ ارحم بہت پیار سے سمیر کو کہ رہا تھا۔۔ سمیر نے ارحم کی طرف دیکھا اور نہ چاہتے ہی سمیر ہنس پڑھا۔۔ ارے کیا ہوا ؟ ہنس کیوں رہے ہو؟ ارحم نے پوچھا۔۔ ارے میں ہنس رہا ہو کہ آپ کب سے اتنا احترام سے پیش آنے لگے ۔۔ یار امی جان نے بولا ہے کہ سمیر کو ساتھ کے کر آنا نی تو گھر میں پاؤں بھی نہیں رکھنے دو گی۔ ارحم اچانک سمیر کے پاؤں پڑ گیا اور اس کے پاؤں پر گر گیا اور زور زور سے کہنے لگا ہاے میں لوٹ گیا ! یاروں گھر سے بے داخل ہو گیا کوئی میری التجا سن لے کوئی ہے یہاں خدا کا بندہ۔۔۔ ارے بس کروں سمیر نے ارحم کو کھڑا کیا اور کہا۔۔۔۔
القلم اقراء رمضان
اسی وجہ سے سمیر چپ رہا کیونکہ غلطی سمیر کی تھی ۔ ارے اب تم مجھے اندار آنے کی اجازات بھی نہیں دو گے ایسی بات نہیں ہے اندار آجاو سمیر اپنے سامان کا بیھگ لے کر اندار آگیا سمیر ارحم کے لیے چاے بنانے گیا اور ارحم سناو کیسے ہو؟ میں ٹیھک ہو تو سنا میں بھی ٹیھک ہو ارحم نے سمیر سے پوچھا کیا کرتے ہو آج کل ؟ میں پارٹ آف جوب کرتا ہو ۔ کونسی ؟ سمیر نے کہا کہ وہ ہوٹل میں منیجر کے ساتھ ہوتا ہے۔ سمیر نے ارحم کو چاے دی اور ساتھ میں کچھ ڈرای فروٹ دے کیونکہ سردیوں کا موسم تھا۔ سمیر نے ارحم کا بیھگ اٹھا کر اس کے کمرے میں رکھ دیا۔ اور ارحم امی ابو کیسے ہیں؟ امی ابو ٹیھک ہیں ۔ اور بہن کیسی ہے؟ وہ بھی ٹیھک ہیں۔ اچھا اب تمہیں ریسٹ کرنا چاہیے تم تھک گے ہو گے۔ صیح کہا مجھے ارم کرنا چاہیے ۔ اب ناشتے کے وقت ملے گے صبح کے 6 بجے تھے اور ناشتا 10 یا 11 بجے ہی بنایا جاتا تھا کیونکہ بڑے شہروں میں سب لوگ لیٹ سوتے اور لیٹ اٹھتے ہیں۔ سمیر ساڑھے دس بجے اٹھا اور فریش ہوا نیچے آیا اور ناشتا بنانے لگا۔ اتنے میں ارحم بھی اٹھ آیا۔اسلام علیکم سمیر ، وعلیکم السلام ارحم،
کیا بنا رہے ہو سمیر بھائی؟ آملیٹ اور پرٹہ ۔ بھائی آپ سے بات کرنی تھی ارحم نہایت ہی احترام سے بولا ادھر سمیر سمجھ گیا ضرور کوئی اہم بات ہے ۔ ہاں بولوں سن رہا ہو ۔ بھائی امی جان اور ابو جان چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ رہے ۔ اور ویسے بھی آپ یہاں اکیلے ہے۔ اور وہاں ہم پریشان رہتے ہیں خاص طور پر امی جان ۔۔۔۔
آپ ہمارے ساتھ آئے وہی پڑھائی کر لینا اور آرمی میں جانا چاہتے ہے تو آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ ارحم بہت پیار سے سمیر کو کہ رہا تھا۔۔ سمیر نے ارحم کی طرف دیکھا اور نہ چاہتے ہی سمیر ہنس پڑھا۔۔ ارے کیا ہوا ؟ ہنس کیوں رہے ہو؟ ارحم نے پوچھا۔۔ ارے میں ہنس رہا ہو کہ آپ کب سے اتنا احترام سے پیش آنے لگے ۔۔ یار امی جان نے بولا ہے کہ سمیر کو ساتھ کے کر آنا نی تو گھر میں پاؤں بھی نہیں رکھنے دو گی۔ ارحم اچانک سمیر کے پاؤں پڑ گیا اور اس کے پاؤں پر گر گیا اور زور زور سے کہنے لگا ہاے میں لوٹ گیا ! یاروں گھر سے بے داخل ہو گیا کوئی میری التجا سن لے کوئی ہے یہاں خدا کا بندہ۔۔۔ ارے بس کروں سمیر نے ارحم کو کھڑا کیا اور کہا۔۔۔۔
القلم اقراء رمضان