خواب تھا یا حقیقت❗
اسد اورصبا میاں بیوی ہیں اور اُن کی ایک چھوٹی سی بیٹی ہے جس کا نام زینب ہے.زینب ویسے تو بہت اچھی بچی ہے مگر اسے پڑھائ میں دلچسپی نہیں وہ ہر وقت کھیل کود میں مصروف رہتی ہے جب کبھی پڑھائ کا نام آتا تو اس کا منہ بن جاتا ہمیشہ کی طرح آج بھی زینب رات کے گیارہ بجے بستر میں اپنی گڑیا کے ساتھ باتیں کر رہی تھی جسے وہ پیار سے بے بی بلاتی ہے......بے بی تم کتنے سکون سےرہتی ہو نہ تمہیں میری طرح نا اسکول جانا پڑتا ہے نہ اتنآ سارا ہوم ورک کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی مما کی ڈانٹ سننی پڑتی ہے صبا دروازے سے کھڑی اپنی نّنھی پرنسز کی باتیں سن رہی تھی... زینب بیٹا سوجاؤ اب.. صبحہ اسکول بھی جانا او کے❗ زینب نے ایک لمبا ساہنس لیتے ہوئے کہا ................ بے بی دیکھا تم نے... کآش میں بھی تمہاری طرح ایک گڑیا ہوتی...صبح کو سوا ساتھ بجےصبا جب زینب کے کمرے میں آئ تو تب وہ سوئ ہوئ تھی زینب بیٹا اٹھ
جاؤ آپ اسکول سے پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہو زینب جو کہ سات بجے سے اٹھی ہوئ تھی پر وہ اب تک بستر میں سونےکا ناٹک کر رہی تھی صبا نے ایک بار اور آواز دی زینب اٹھ جا ؤ بیٹا اسکول جانے کا ارادا نہیں کیا صبا چپکے سے زینب کے بستر کے قریب آئ اور دھیرے سے بے بی یعنی اس کی گڑیا کو اس کے بازؤں سے نکالا زینب دیکھو اگر تم اسکول کے لیے نہیں اٹھی تو میں اس گڑیا کو کھول کر اس کی ساری روئ نکال کراس سے کشنس بنا لوں گی نہیں ......مما آپ ایسا کچھ نہں کریں گی زینب چیختی ہوئ اٹھ بیٹھی آہاں بدما ش تم پہلے سے جاگ رہی تھی نا چلو اب فٹا فٹ ریڈی ہو جاؤ ورنہ تمہاری بے بی اب بھی میرے ہاتھ میں ہے
ہاں ہاں .... اٹھ رہی ہوں لیکن پہلے آپ میری بے بی کو مجھے دے دیں نہیں پہلے تم تم تیار ہو جاؤ اوکے ....ہمممم اوکے آج ہفتے کا کا دن تھا اور زینب بھی خوشی خوشی اسکول جانے لگی وہ اس لیے کیوں کے کل ہو لی ڈے تھا ...............رات کو کھا نے کے بعد صبا اپنے کمرے میں بیڈ پر ایک ڈائری لیے بیٹھی تھی اس کے کے برابر میں اس کا اسد بھی بیٹا تھا وہ اس ڈائری کو روز پڑھتی تھی اور اسے پڑتےہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آتے اسد جب بھی اس یہ پوچھتا کہ اس ڈائری میں میں ایسا کیا ہے کہ صبا جب بھی تم اس ڈائری کو پڑھتی ہو تو رونے کیوں لگ جاتی ہو تو وہ ہمیشہ بات کو ٹال دیتی اور اس کو کہیں چھپا کے رکھا کرتی تھی آ ج کے دن بھی جب اسد نے صبا سے اس بارے میں پوچھا تو اس نےپھر ٹالنے کی کوشش کی لیکن اسد نےآج اس بارے جاننے کی ٹھان لی تھی اسد نے صبا کے ہاتھ سے ڈائری چھین لی صبا نے ڈائری واپس لینے کی بہت کوشش کی لیکن اسد نے ڈائری نہ دی تو صبا کو مجبوراًاسد کو سب کچھ بتانا پڑا.....اسد اس ڈائری میں کیا میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن پر پلیز یہ مجھے دے دو اسد نے اسے ڈائری واپس دے دی ................اسد میں نے تمہیں کبھی اپنی فیملی کے بارےمیں کچھ نہیں بتا یالیکن آج میں تمہیں سب بتاتی ہو میرے ابّو پہلے بہت سخت مِزاج ہوا کرتے تھےہم دو بہنیں تھں ایک میری بڑی بہن مہر اور میں سب سے آخری تھی ہمارے والد ہم سے بہت پیار کرتے تھے ہماری ہر وہ خواہش پوری کیا کرتے تھے جو ان کے اصولوں کے مطابق ہواگر ہم غلطی سے بھی کسی ایسی خواہش کا اظہار کرلیتے جو ان کے اصولوںکے مطابق نہ ہو تو وہ ہم سے مہینوں تک ناراض رہتے تھےمہر آپی ہمارا بہت خیال رکھتی تھی اور اسی وجہ سے ہمارے با با سب سے زیادہ اسے پیار کرتے ہمارے بابا پندرہ سال سے زائد عمر کی لڑ کی کے گھر سے باہر جانے کہ سخت خلاف تھے ہماری آپی کی عمر ابھی چودہ سال تھی ہماری آپی کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ تعلم حاصل کرکے ایک اچھی اور مشہور شخصیت کی مالک بنے لیکن افسوس کہ اس کی یہ.. علم کی خواہش پوری نہ ہو سکی وہ علم سے اتنی محبت کرتی تھیں کے وہ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی مختلف ٹوپکس پر مطالعہ کرتی رہتی اور ہر وہ نئ بات جو سیکھتی ابّو کے ساتھ شیئر کرتی اور ابو کے سامنے بڑی بڑی باتیں کرتی مجھے آج بھی یادہے کہ مہر ابو کو ایک حدیث سنا یا کرتی تھی کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی الّلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا مرد ہو یا عورت ہر مسلمان پر فرز ہے ماں کی گود سے لیکر قبر کی مٹی تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیےوہ ابو سےتعلیم کے متعلق جو بات کرتی اس کے بعد وہ انہیں یہ حدیث ضرور سناتی لیکن مہرآپی کا مقصد پورا نہ ہوتا جس کے لیے وہ ایسا کرتی تھی وہ جا نتی تھی ہمارے ابو ایک لڑکی کےتعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیھں لیکن شاید وہ ابوسے بھی زیادہ علم سے محبت کرتی تھی وہ جب سے چودہ سال کی ہوئ ہر وقت الجھی الجھی مضطرب رہا کرتی تھی اس کے ایٹ کلاس کے اگزام ہونے والے تھے اور وہ ان پر توجو نہیں دے پارہی تھی وہ ہر وقت بس اسی بارے میں سوچتی رہتی کے اگر ابو کو نا منا پائ تو مرا کیا ہوگا بڑی مشکلو ں سے اس نے اگزیمس کی تیاری کی اور الّلہ کی مہربانی سے...
جاؤ آپ اسکول سے پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہو زینب جو کہ سات بجے سے اٹھی ہوئ تھی پر وہ اب تک بستر میں سونےکا ناٹک کر رہی تھی صبا نے ایک بار اور آواز دی زینب اٹھ جا ؤ بیٹا اسکول جانے کا ارادا نہیں کیا صبا چپکے سے زینب کے بستر کے قریب آئ اور دھیرے سے بے بی یعنی اس کی گڑیا کو اس کے بازؤں سے نکالا زینب دیکھو اگر تم اسکول کے لیے نہیں اٹھی تو میں اس گڑیا کو کھول کر اس کی ساری روئ نکال کراس سے کشنس بنا لوں گی نہیں ......مما آپ ایسا کچھ نہں کریں گی زینب چیختی ہوئ اٹھ بیٹھی آہاں بدما ش تم پہلے سے جاگ رہی تھی نا چلو اب فٹا فٹ ریڈی ہو جاؤ ورنہ تمہاری بے بی اب بھی میرے ہاتھ میں ہے
ہاں ہاں .... اٹھ رہی ہوں لیکن پہلے آپ میری بے بی کو مجھے دے دیں نہیں پہلے تم تم تیار ہو جاؤ اوکے ....ہمممم اوکے آج ہفتے کا کا دن تھا اور زینب بھی خوشی خوشی اسکول جانے لگی وہ اس لیے کیوں کے کل ہو لی ڈے تھا ...............رات کو کھا نے کے بعد صبا اپنے کمرے میں بیڈ پر ایک ڈائری لیے بیٹھی تھی اس کے کے برابر میں اس کا اسد بھی بیٹا تھا وہ اس ڈائری کو روز پڑھتی تھی اور اسے پڑتےہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آتے اسد جب بھی اس یہ پوچھتا کہ اس ڈائری میں میں ایسا کیا ہے کہ صبا جب بھی تم اس ڈائری کو پڑھتی ہو تو رونے کیوں لگ جاتی ہو تو وہ ہمیشہ بات کو ٹال دیتی اور اس کو کہیں چھپا کے رکھا کرتی تھی آ ج کے دن بھی جب اسد نے صبا سے اس بارے میں پوچھا تو اس نےپھر ٹالنے کی کوشش کی لیکن اسد نےآج اس بارے جاننے کی ٹھان لی تھی اسد نے صبا کے ہاتھ سے ڈائری چھین لی صبا نے ڈائری واپس لینے کی بہت کوشش کی لیکن اسد نے ڈائری نہ دی تو صبا کو مجبوراًاسد کو سب کچھ بتانا پڑا.....اسد اس ڈائری میں کیا میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن پر پلیز یہ مجھے دے دو اسد نے اسے ڈائری واپس دے دی ................اسد میں نے تمہیں کبھی اپنی فیملی کے بارےمیں کچھ نہیں بتا یالیکن آج میں تمہیں سب بتاتی ہو میرے ابّو پہلے بہت سخت مِزاج ہوا کرتے تھےہم دو بہنیں تھں ایک میری بڑی بہن مہر اور میں سب سے آخری تھی ہمارے والد ہم سے بہت پیار کرتے تھے ہماری ہر وہ خواہش پوری کیا کرتے تھے جو ان کے اصولوں کے مطابق ہواگر ہم غلطی سے بھی کسی ایسی خواہش کا اظہار کرلیتے جو ان کے اصولوںکے مطابق نہ ہو تو وہ ہم سے مہینوں تک ناراض رہتے تھےمہر آپی ہمارا بہت خیال رکھتی تھی اور اسی وجہ سے ہمارے با با سب سے زیادہ اسے پیار کرتے ہمارے بابا پندرہ سال سے زائد عمر کی لڑ کی کے گھر سے باہر جانے کہ سخت خلاف تھے ہماری آپی کی عمر ابھی چودہ سال تھی ہماری آپی کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ تعلم حاصل کرکے ایک اچھی اور مشہور شخصیت کی مالک بنے لیکن افسوس کہ اس کی یہ.. علم کی خواہش پوری نہ ہو سکی وہ علم سے اتنی محبت کرتی تھیں کے وہ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی مختلف ٹوپکس پر مطالعہ کرتی رہتی اور ہر وہ نئ بات جو سیکھتی ابّو کے ساتھ شیئر کرتی اور ابو کے سامنے بڑی بڑی باتیں کرتی مجھے آج بھی یادہے کہ مہر ابو کو ایک حدیث سنا یا کرتی تھی کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی الّلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا مرد ہو یا عورت ہر مسلمان پر فرز ہے ماں کی گود سے لیکر قبر کی مٹی تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیےوہ ابو سےتعلیم کے متعلق جو بات کرتی اس کے بعد وہ انہیں یہ حدیث ضرور سناتی لیکن مہرآپی کا مقصد پورا نہ ہوتا جس کے لیے وہ ایسا کرتی تھی وہ جا نتی تھی ہمارے ابو ایک لڑکی کےتعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیھں لیکن شاید وہ ابوسے بھی زیادہ علم سے محبت کرتی تھی وہ جب سے چودہ سال کی ہوئ ہر وقت الجھی الجھی مضطرب رہا کرتی تھی اس کے ایٹ کلاس کے اگزام ہونے والے تھے اور وہ ان پر توجو نہیں دے پارہی تھی وہ ہر وقت بس اسی بارے میں سوچتی رہتی کے اگر ابو کو نا منا پائ تو مرا کیا ہوگا بڑی مشکلو ں سے اس نے اگزیمس کی تیاری کی اور الّلہ کی مہربانی سے...