خواب تھا یا حقیقت❗
اسد اورصبا میاں بیوی ہیں اور اُن کی ایک چھوٹی سی بیٹی ہے جس کا نام زینب ہے.زینب ویسے تو بہت اچھی بچی ہے مگر اسے پڑھائ میں دلچسپی نہیں وہ ہر وقت کھیل کود میں مصروف رہتی ہے جب کبھی پڑھائ کا نام آتا تو اس کا منہ بن جاتا ہمیشہ کی طرح آج بھی زینب رات کے گیارہ بجے بستر میں اپنی گڑیا کے ساتھ باتیں کر رہی تھی جسے وہ پیار سے بے بی بلاتی ہے......بے بی تم کتنے سکون سےرہتی ہو نہ تمہیں میری طرح نا اسکول جانا پڑتا ہے نہ اتنآ سارا ہوم ورک کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی مما کی ڈانٹ سننی پڑتی ہے صبا دروازے سے کھڑی اپنی نّنھی پرنسز کی باتیں سن رہی تھی... زینب بیٹا سوجاؤ اب.. صبحہ اسکول بھی جانا او کے❗ زینب نے ایک لمبا ساہنس لیتے ہوئے کہا ................ بے بی دیکھا تم نے... کآش میں بھی تمہاری طرح ایک گڑیا ہوتی...صبح کو سوا ساتھ بجےصبا جب زینب کے کمرے میں آئ تو تب وہ سوئ ہوئ تھی زینب بیٹا اٹھ
جاؤ آپ اسکول سے پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہو زینب جو کہ سات بجے سے اٹھی ہوئ تھی پر وہ اب تک بستر میں سونےکا ناٹک کر رہی تھی صبا نے ایک بار اور آواز دی زینب اٹھ جا ؤ بیٹا اسکول جانے کا ارادا نہیں کیا صبا چپکے سے زینب کے بستر کے قریب آئ اور دھیرے سے بے بی یعنی اس کی گڑیا کو اس کے بازؤں سے نکالا زینب دیکھو اگر تم اسکول کے لیے نہیں اٹھی تو میں اس گڑیا کو کھول کر اس کی ساری روئ نکال کراس سے کشنس بنا لوں گی نہیں ......مما آپ ایسا کچھ نہں کریں گی زینب چیختی ہوئ اٹھ بیٹھی آہاں بدما ش تم پہلے سے جاگ رہی تھی نا چلو اب فٹا فٹ ریڈی ہو جاؤ ورنہ تمہاری بے بی اب بھی میرے ہاتھ میں ہے
ہاں ہاں .... اٹھ رہی ہوں لیکن پہلے آپ میری بے بی کو مجھے دے دیں نہیں پہلے تم تم تیار ہو جاؤ اوکے ....ہمممم اوکے آج ہفتے کا کا دن تھا اور زینب بھی خوشی خوشی اسکول جانے لگی وہ اس لیے کیوں کے کل ہو لی ڈے تھا ...............رات کو کھا نے کے بعد صبا اپنے کمرے میں بیڈ پر ایک ڈائری لیے بیٹھی تھی اس کے کے برابر میں اس کا اسد بھی بیٹا تھا وہ اس ڈائری کو روز پڑھتی تھی اور اسے پڑتےہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آتے اسد جب بھی اس یہ پوچھتا کہ اس ڈائری میں میں ایسا کیا ہے کہ صبا جب بھی تم اس ڈائری کو پڑھتی ہو تو رونے کیوں لگ جاتی ہو تو وہ ہمیشہ بات کو ٹال دیتی اور اس کو کہیں چھپا کے رکھا کرتی تھی آ ج کے دن بھی جب اسد نے صبا سے اس بارے میں پوچھا تو اس نےپھر ٹالنے کی کوشش کی لیکن اسد نےآج اس بارے جاننے کی ٹھان لی تھی اسد نے صبا کے ہاتھ سے ڈائری چھین لی صبا نے ڈائری واپس لینے کی بہت کوشش کی لیکن اسد نے ڈائری نہ دی تو صبا کو مجبوراًاسد کو سب کچھ بتانا پڑا.....اسد اس ڈائری میں کیا میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن پر پلیز یہ مجھے دے دو اسد نے اسے ڈائری واپس دے دی ................اسد میں نے تمہیں کبھی اپنی فیملی کے بارےمیں کچھ نہیں بتا یالیکن آج میں تمہیں سب بتاتی ہو میرے ابّو پہلے بہت سخت مِزاج ہوا کرتے تھےہم دو بہنیں تھں ایک میری بڑی بہن مہر اور میں سب سے آخری تھی ہمارے والد ہم سے بہت پیار کرتے تھے ہماری ہر وہ خواہش پوری کیا کرتے تھے جو ان کے اصولوں کے مطابق ہواگر ہم غلطی سے بھی کسی ایسی خواہش کا اظہار کرلیتے جو ان کے اصولوںکے مطابق نہ ہو تو وہ ہم سے مہینوں تک ناراض رہتے تھےمہر آپی ہمارا بہت خیال رکھتی تھی اور اسی وجہ سے ہمارے با با سب سے زیادہ اسے پیار کرتے ہمارے بابا پندرہ سال سے زائد عمر کی لڑ کی کے گھر سے باہر جانے کہ سخت خلاف تھے ہماری آپی کی عمر ابھی چودہ سال تھی ہماری آپی کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ تعلم حاصل کرکے ایک اچھی اور مشہور شخصیت کی مالک بنے لیکن افسوس کہ اس کی یہ.. علم کی خواہش پوری نہ ہو سکی وہ علم سے اتنی محبت کرتی تھیں کے وہ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی مختلف ٹوپکس پر مطالعہ کرتی رہتی اور ہر وہ نئ بات جو سیکھتی ابّو کے ساتھ شیئر کرتی اور ابو کے سامنے بڑی بڑی باتیں کرتی مجھے آج بھی یادہے کہ مہر ابو کو ایک حدیث سنا یا کرتی تھی کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی الّلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا مرد ہو یا عورت ہر مسلمان پر فرز ہے ماں کی گود سے لیکر قبر کی مٹی تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیےوہ ابو سےتعلیم کے متعلق جو بات کرتی اس کے بعد وہ انہیں یہ حدیث ضرور سناتی لیکن مہرآپی کا مقصد پورا نہ ہوتا جس کے لیے وہ ایسا کرتی تھی وہ جا نتی تھی ہمارے ابو ایک لڑکی کےتعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیھں لیکن شاید وہ ابوسے بھی زیادہ علم سے محبت کرتی تھی وہ جب سے چودہ سال کی ہوئ ہر وقت الجھی الجھی مضطرب رہا کرتی تھی اس کے ایٹ کلاس کے اگزام ہونے والے تھے اور وہ ان پر توجو نہیں دے پارہی تھی وہ ہر وقت بس اسی بارے میں سوچتی رہتی کے اگر ابو کو نا منا پائ تو مرا کیا ہوگا بڑی مشکلو ں سے اس نے اگزیمس کی تیاری کی اور الّلہ کی مہربانی سے وہ ہمیشہ کی طرح فرسٹ پو زیشن آئ پر وہ اپنے اسکول کی ٹوپر تھی پر اس بار جب وہ فرسٹ پوزیشن آئ تو اسے کچھ زیا خوشی نہیں ہوئ وہ تو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ ابو مجھے اسکول جانے دیں گے بھی کہ نہیں رات کو وہ اپنے بستر پر سوچوں میں گم سم لیٹی ہوئ تھی اس لمحے کو یاد کر رہی تھی جب ابو نے اس سے کہا تھا کہ تم صرف آٹھ جماعتیں پڑھ پاؤ گی یہ بات اس وقت تو اس نے ٹال دی تھی چوںکہ یہ بات اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھی لیکن اب وہ اس وقت کو نہیں ٹال سکتی تھی وہ بڑ بڑاتے ہوئے روتے ہوئے خود سے نا جانے کیا کیا کہے جارہی تھی لیکن اس کا وہ آخری لفظ جو میں سنا تھا .............مممم ....میں کل اسکول نہیں جا پاؤں گی میں....جو کہ ..اپنے اسکول کی اپنی کلاس کی ٹو پر ہو میں اسکول نہیں جا پاؤں گی یا الّلہ ایک ایسی لڑکی جس نے بچپن سے لے کہ اب تک ایک بھی دن اسکول مس نہیں کیا وہ روتے ہوئے یہ الفاظ کہ رہی تھی مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہاتھا کہ یہ کوئ ....خواب ہے یا حقیقت ....ایک ایسی با ہمت لڑکی اس طرح سے کیسے رو سکتی ہے اسے دیکھ کراس وقت میں بھی رونے لگی اور اس نے مجھے روتا دیکھ اپنے پاس بلایا اور مجھے اپنے گلے لگائے بیٹھی رہی اور سسکیاں لیتی رہی اور پتا نہیں کب ہم دونوں کی آنکھ .لگ .گئ........صبح ہو چکی تھی سورج بھی نکل چکا تھا دنیا روز کے معمول کی طرح آج بھی چل رہی تھی لیکن جب میں نے اپنے آس پاس دیکھا تو آپی مجھے کہیں نظر نہیں آئ ابھی میری نظر ادھر اُدھر آپی کو ڈھونڈ ھ ہی رہیں تھی تو میں نےآپی کو کمرےمیں آتے دیکھا آپی نے یورنی فارم پہنا ہوا تھا میں خوشی سے اٹھ کڑی ہوئ آپی....کیا آپکو ابو نے اسکول جانے کی اجازت دے دی ان کے چھرے پر اب بھی مایوسی تھی ....نہیں بیٹا اب تک ابو کا سامنا ہی نہیں ہوا لیکن مجھے پورا یقین ہے ابو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں وہ مجھے مایوس نہیں کریں گے اس کی اس امید نے مجھے بھی دلا دی کہ شاید ہماری آپی ابو کے ان اصولوں کو بدل ڈالے جو ایک نا ممکن بات تھی لیکن بار بار خودکو تصّلی دینے کے لیے یہ الفاظ کہتیں کہ میرا دل نا امّید تونہیں ہے نا الّلہ ملک ہے ابھی وہ یہ الفاظ بولتے ہوئے کتابیں سمیٹ کر بستے میں ڈال ہی رہی تھی کہ ابو آگئے ابو آکر مہر کے پاس کھڑے ہوئے اور ان سے کہنے لگے کہ دیکھو بیٹا اب تم ہو گئ ہو بہت بڑی تم نے آٹھ جماعتیں ممکل کرلیں اب تم پڑھا ئ چھوڑ دو ویسے بھی لڑکیا پڑھ لکھ کر کیا کر لیں گیں مہر کو اس لفظ سے سخت نفرت تھی لیکن وہی لفظ جب اس نےاپنے لیے اپنے ابو کے منہ سے سنا تو وہ خاموش نہ رہ سکیں...کیوں ابو کیا لڑکیا پاگل ہوتیں ہیں یا ان کے پاس دماغ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں آپ مجھے ہی دیکھ لی جیے بچپن سے لے اب تک فرسٹ پوزیشنس ہی لیتی آرہی ہو نا ......بس مہر میں نے کہہ دیا نا تم اسکول نہیں جاؤ گی تو بس نہیں جاؤ گی یہ میرا آخری فیصلہ ہے ..لیکن ابو ......مہر کے الفاظ اس بے بسی میں ادھورے رہ گئے مہر آپی اس وقت روتی رہی امی اسے روتا ہوا دیکھ نہیں پارہی تھی اس نے مہر کی ہمایت میں ابو سے کہا اسے جانے دیجیے نا اسکول ہماری بچی باقیوں جیسی نہیں ہے وہ آ پ کا نام روشن کرے گی لیکن ابو نے امی کو بھی یہی کہتے ہوئے چپ کرا دیا یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے میں بھی اس وقت ابو امّی کے کمرے میں آگئ ہم سب ابھی خاموشی سے بیٹھے ہی تھےکہ کہ اچانک سے کسی کے گر نے کی آواز آئ ابو نے مجھ سےکہا صبا ذرا جا کر دیکھوں تو پھر کیا ہوگیا میں نے جب جاکر کر دیکھا تو آپی نیچے فرش پر پڑی تھیں ان کی پوری بازو خونم خون تھی آپی بے خوش تھیں میں نےذور سےچلّائ ابو ..امّی جلدی سے یہاں آئیں مہر آپی نے اپنی نس کاٹ لی ہے جلدی آئیں آپی..... آپی اٹھ جاؤ پلیز ..... آبو امّی بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے کیا ہوا کیا ہوامیری بچی امّی چیخ ہوئ مہر کے پاس آئیں مہر ..مہر بیٹا اٹھ اٹھ جاؤ میری بچی مجھے پتا نہیں تھا کہ تعلیم تمہیں اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے ابو نے جب مہر کی حالت دیکھی تو اپنے تمام اصول بھول گئے ابو اٹھ جائیں یہ وقت رونے کا نہیں ہے اٹھ جائیں مہر آپی کو ہوسپٹل لے جائیں پلیز....... ہاں اٹھو ...اٹھو جلدی .****امّی آکر ابو کہ پاس بیٹھں آپ فکر مت کیجیے ہماری مہر ٹھیک ہو جائے گی زوہرا بیگم پلیز تم اس کے لیے دعا کرو تم تو اس کی ماں ہو نہ اور ماں کی دعا تو الّلہ تعالٰی فوراً سنتا ہے امّی بھی مہر کے لئے بہت پریشان تھیں بار بار رو رو کر الّلہ سے دعائیں مناگ رہیں تھیں ..دیکھیے نعمان صحاب مہر میری بھی بچی ہے لیکن آپکو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ جیسے ہی مہر کی تبیعت بہتر ہوگی آپ اسے اسکول جانیں دیں گے زوہرا بیگم مجھے معاف کردو میری عقل پر پردہ ڈل گیا تھا میری بیٹی کی آنکھوں میں تعلیم کیلئے جو محبت جو جزبہ تھا وہ میں نہیں دیکھ پایا تم ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھی نا کہ ہماری بچی باقیوں جیسی نہں ہے میں ہی نہیں سمجھ پایا واقعی ہماری بیٹی سب سےمختلف ہے ابھی امّی اور ابو آپس میں گفتگوں کرہی رہے تھے ڈوکٹر آگیا ابو فواً کھڑے ہو گئے ڈوکٹر...صاحب میری بچی ٹھیک تو ہے نا اسے کچھ ہوگا تو نہیں نا پلیز ڈوکٹر میری بچی کو ٹھیک کر دیجیے.. آپ جتنے پیسے کہے گے دینے کو تیار ہوں بس آپ میری بچی کو ٹھیک کردیجیے ...دیکھیے جناب آپ فکر مت کیجیے آپ کی بیٹی بلکل ٹھک ہے اسے حوش بھی آچکا میں آپ سے یہی کہنے کے لیئے آیا تھا کہ آپ اب اپنی بیٹی سے مل سکتے ہیں .......یا الّلہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تونے میری بچی کو ٹھیک کر دیا دیکھو زوہرا بیگم تم اس کی ماں ہو ناں تمہاری دعائیں رنگ لے آئیں ہیں ڈوکٹر صاحاب آپ کا بہت بہت شکریہ ..ارے جناب آپ ہمارا شکریا بعد میں کر لیجیے گا پہلے آپ اپنی بیٹی سے جا ملیے وہ جب سےحوش میں آئ ہے آپ ہی کا نام لے رہی ہے ......مہر دھیمی آواز میں ابو ابو پکار رہی تھی ..جی میری بچی تم ٹھک تو ہو نا مجھے معاف کردو میری بچی میں تمہیں سمجھ نہیں پایا ....مہر نے آکسیجن ماسک اتار کر ابو سے کہا ابو آپ نے مجھے کیوں بچایا مجھے مرجانے دیتے نا ویسے بھی ہے وہی انسان جو جاہل نہیں تو انسان تعلیم کے بغیر حیوان کی مانند ہوتا ہے میں اپنی ساری زندگی ان پڑھ بن کر گزارنا نہیں چا ہتی تھی اسی لیے میرا مر جانا ہی بہتر تھا.....نہیں میری بچی ایسا مت کہو اگر خدا نا خواستا
تمہں کچھ ہو جاتاتو تو میرا کیا ہوتا تمہاری بہن تمہاری ماں ہم سب کا کیا ہوتا ایک تم ہی تو تو ہو جو ہمیں سنبھالتی ہو ہم سب میں سے تم سب زیادہ بہادر ہو اور ہاں یہ تم کیا کہ رہی تھی ہے وہی انسان جو جاہل نہیں دیکھوں میری بچی تم ایک بہادر اور ایک اچھی انسان ہو اور لو مس مہر میں بھی تم سے وعداکرتا ہوں کہ اب میں تمہیں صرف ایک انسان نہیں رہنے دوں ..ککککیا ابو .. میرا مطلب یہ ہے میں تمہیں ایک اچھی پڑھی لکھی با شعور شخصیت کا مالک بناؤں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے مہر آپی خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہی تھی کیا ...وقعی ابو آئ لو یو ابو لو ٹو میری شیرنی لیکن یہ یہ جو تم تم نے نس کاٹنے والی حرکت کی ہے اس کے بارے میں تماری کیا رائے ہے کیا تمہارے نزدیک یہ بیوقوفوں والی حرکت نہیں ہاں جانتی ہوں کی واقعی بیوقوفوں والی حرکت ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگر میں نے زندگی میں ک بھی کوئ بے وقو فی کی بھی تو وہ میرے کام آگئ ...امّی اورمیں بھی مہر
کے پاس آگے گئے بد ماش ....تم بہت زد ہو آخر اپنی نہیں زد پوری کر ہی لی نا ناں زوہرا بیگم ناں اسے مہر کی زد مد مت کہو یہ تو شاید میرےلیے ایک سبق تھا الّلہ کی جانب سے ******آج وہ بے حد خوش تھی آج اس چہرے پر ایک اطمینان اس کے ہوٹوں پر ہلکی سی مسکان اور آج کے پُر اطمینان دن نے اس کے خوبصورت چہرے کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا وہ مسکراتی ہوئ خوشی خوشی اپنے اسکول کی تیاریاں مکّمل کر رہی تھی مہر آپی جلدی کیجیے ہم لیٹ ہورہے ہیں ہاں ہاں صبا بس میں ابھی آئ..مہر اپنے چہرے پر مسکان سجاتی ہوئ کمرے سے نکل رہی تھی کے سامنے ابو اور امّی کھڑے تھے اس وقت جو الفاظ ابو نے کہے تھے وہ آج میرے ذہن نشین ہیں ..مہر بیٹا آج میں تمہیں ایک دعا دیتا کہ تم ہمیشہ اپنے چہرے پر ایسی ہی مسکان سجائے اپنی کامیابی کی سیڑھیا چڑھتی جاؤ اور میں تمہیں اپنی نیک دعاؤں کے ساتھ گھر سے رخست کرو ایک مضبوط باب کی طرح نہ ایک بے بس باب کی طرح جو کہ اپنی بیٹیوں کو رلاتے ہوئے اور خود بھی روتے ہوئے سَسُرال رخصت کرتے ہیں ..ہا ہا ابو آئ لو یو میں بھی آپ سے وعدہ کرتی ہوں کے آپ کے اس بلند سر کو مزید بلند کردوں گی.. انشاالّلہ بیٹا مجھے تم سے یہی امید ہےاوکے ابو اب میں چلتی ہوں مہر آپی اور میں خوشی خوشی گھر سے نکلے ہمدونوں راستے کے پر کشش مناظر کو دیکھتے جارہے تھے آپی نے مجھ سے کہا کہ وہ دیکھو صبا سامنے بکس کی ریڑھی تم یہی رکو میں ابھی آئ آپی میراہاتھ چھڑا کرآگے چل پڑی کہ سامنے سے ایک ٹرک آرہا تھا****امّی آپی کی لاش پر اپنا کندھا رکھے بے حال پڑیں تھیں انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی بیٹی کے غم میں روئوں یا بیوہ ہونے کا ماتم منا ؤں ہمارے وہ ابو جنہوںنے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر اپنے ان اصولوں کو بھی توڑ ڈالا جنہیں کبھی بھی نہ توڑنے کی ابونے قسم کھا رکھی تھی جب اسی بیٹی کے ٹرک کے نیچے آکر مر جانے کی خبر سنی تو اپنی جان سے بھی پیاری بیٹی کے جدائ کے صدمے میں ابو بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور تب سے اب تک میری ماں نے مجھے تنہا پالا پوسا اور بڑی مہنتوں سے ڈوکٹر بنایا مہر آپی کے جانے بعد امّی نے قسم کھا رکھی تھی کے تھی کہ وہ مجھے ایک قابل انسان بنائیں گیں میری آپی کا جو خواب ادھورا رہ گیا اسے وہ ذرور پورا کریں گیں صبا ایک سینیئر ڈوکٹر تھیں جس کا اپنا ایک ہوسپیٹل تھا پتا ہےتمہیں اسد میں زینب کی پڑھائ پر اتنا زور کیوں دیتی ہوں خود اس کا خاص خیال کیوں رکھتی ہوں کیوں کہ یہ خوش نصیبی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے امیری میں تعلیم حاصل کرنا اور بنا کسی کی روک ٹوک کہ میری آپی جوکہ علم طالب کی ایک بہت بڑی مثال تھیں ان پر پہلے روک ٹوک تھی اور جب آزادی ملی تو الّلہ نے ہماری کو ہم سے لے لیا اور ایک میں بد نصیب جس ساری زندگی بنا باپ کے سائےکے غریبی میں تعلیم حاصل کی لیکن الّلہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تعلیم جیسی نعمت سے نوازا اور ایک زینب جیسی رحمت سے جسے تو پڑھنے لکھنے کا کوئ شوق ہی نہیں میں بس دن رات الّلہ یہی دعائیں مانگتی ہو یا الّلہ تو ہماری زینب کو کو علم کا طالب بنادے اور سیرتاً بلکل اپنی خالا جیسا اسد نےلنمبی ساہس لیتے ہوئے کہا آمین الّلہ مہر آپی درجات بلند کرے گا آمین *****,,صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا آج کا دن دن بہت ہی زیادہ خوبصورت تھا موسم بھی کافی دلکش تھا صبا کی آنکھ کھلی تو صبح کے نو بج چکے تھے صبا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا او میرے خدایا اتنا وقت ہوگیا ہے ہممممم آں ارے آج سنڈے ہے چلو شکر ہے زینب بھی بڑے مزے سے سو رہی ہوگی الّلہ ہدایت دے اس لڑکی کو باقی ہمارے تو بس کی بات نہیں..... صبا نے صبا نے بریک فاسٹ کی ٹیبل سجا دی تھی تب تک اسد بھی بھی اٹھ چکا تھا صبا نے اسد کو آوز دیتے ہوئے کہا اسد ناشتہ تیار ہے جلدی آجائیں میں ذرا زینب کی خیریت معلوم کر کہ آ تی ہوں ہاں ہاں آرہا ہوں صبا جب زینب کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے پہلی نظر اس کے بستر پر ڈالی توزینب اپنے بسر پر موجود نہیں تھی اف ناجانے کہا چلی گئ یہ لڑکی صبا نے ادھر ادھر نظر گھماتے ہوئے دیکھا تو زینب فرش پر ڈھیروں کتا بیں پھیلائے بیٹھی تھی اور اپنا ہوم ورک کر رہی تھی وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف تھی کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہو پایا صبا زینب کے قریب آکر بولی اومیرے الّلہ یہ کوئ خواب ہے یا حقیقت میری زینب پرنسز زینب سنڈی کو صبح نو بجے بستر میں آرام کرنے کے بجائے کام کرہی ہے مجھے یقین نہیں آرہا کوئ چٹکی کاٹو مجھے زینب نے شرارت بھرے انداز میں صبا کو چٹکی کاٹی آہ.....بس بس..ہاں اب آگیا نا یقین مّما کل آپ نے مجھ سے میری بیبی لی تھں اور دیکھیے ابھی تک واپس نہیں کی اچھا سوری نا میری جان میں تمہں تمہاری بیبی واپس کردوں گی پر یہ بتاؤ کہ تم میں اتنا بڑا چینج کیسے ...مّما زینب نے صبا کی بات کاٹتے ہوئے کہا آپ کو پتا ہے رات کو میں اپنی بیبی لینے آئ تھی پھر آپ دونوں کچھ باتیں کر رہے تھے..زینب مزاق مت کروچلو میرے ساتھ اور چل کر ناشتا کرو ایک پل کے لیئے صبا کے ذہن میں بہت سے خیال آئے الّلہ کہیں زینب نے ہماری ساری ساری باتیں سن تو نہیں لیں نہیں صبا نے اپنے ذہن میں آنے والے تمامخیارات کو جھنجھڑ دیا اور زینب کو لے کر چلی گئی......ناشتے کی میز پر خاموشی تھی سب چپ چاپ ناشتا کر رہے تھےکہ زینب اور صبا دونوں اچانک سے ایک ساتھ بول پڑیں ...اسد آپ کو ایک بات پتا ہے ....ابو آپ کو ایک بات پتا ہے ارے بھائ کیا ہوگیا ہے ایک ایک کر کےبولوامّی پہلے آپ ہی کہیے اسد آپ کو پتا ہماری بچی راہ راست پر آگئی ہے میں جب صبح اس کے کمرے میں گئ تو یہ بڑے آرام سے......کیا آرام سے...بڑے آرام سے آرام نہیں کرہی تھی بلکہ کام کر رہی تھی ارے واہ واہ بھائ یہ تو بہت بڑا کمال ہو گیا زینب نے کہا با با اگر آپ نے شکر ادا کر لیا تو میں اپنی بات کہوں ...او میرے خدایا بابا ہاں ہاں میری بچی اب تو تم جو کہو گی ہم خاموشی سے سنیں گے ...با با آپ کو پتا ہے میری بے بی آپ کے کمرے میں ہے اور میں جب رات کو آپ کہ کمرے میں آئ تو آپ لوگ کچھ بات کر رہے تھے زینب نے ماں کی طرف متوجہ ہوکر کہا ما ماں آپ بہت بری ہیں آپ کو پتا میری ایک کلاس فیلو ہے الینا اس سے اس کی خالا اتنا پیار کرتی ہے وہ مجھے بتاتی اور بدلے میں میں خاموش ہو جاتی ہوں اور میری بھی ایک خالا تھیں زینب کی باتیں سن کر صبا کے جو جس پی رہی تھی وہ اس کے گلے میں اٹک گیا جس کی وجہ سے اسے کھانسی آگئ دھیان سے مّما ......ممّا ویسے میری خالابھی جینیس تھیں وہ کہا کرتیں تھی نا کہ ہے وہی انسان جو جاہل نہیں تو اب میں بھی تو اب میں بھی خود سے اور آپ سب سے یہ وعدہ کرتی ہو علم سے اتنی محبت کروں گ جتنی میری جینیس خالا نے بھی نہیں کی ہوگی اور جیسے وہ پڑھ لکھ کر اچھی مشہور اورعظیم شخصیت کی مالک بننا چاہتیں تھیں بلکل ویسی ہی بنو گی صبا اور اسد اس کی اتنی بڑی بڑی باتیں سن کر حیران رہ گئے تھے اور اب تک تو وہ سمجھ ہی چکے تھے کے پرنسز زینب اتنی اچھی اچھی باتیں کیسے کر رہی تھی اسد اور صبا بے حد خوش تھے کہ ان کی زینب بلکل ویسی بن چکی ہے جیسا وہ چاہتے تھے زینب اپنے ماں باپ کی باتیں سن چکی تھی اور سمجھ بھی چکی تھی آج سب بہت خوش تھے اور موسم بھی خوشگوار تھا اس لیئے صبا نے ڈسائیڈ کیا کہ وہ آج آؤٹنگ پر جائینگے
© All Rights Reserved
جاؤ آپ اسکول سے پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہو زینب جو کہ سات بجے سے اٹھی ہوئ تھی پر وہ اب تک بستر میں سونےکا ناٹک کر رہی تھی صبا نے ایک بار اور آواز دی زینب اٹھ جا ؤ بیٹا اسکول جانے کا ارادا نہیں کیا صبا چپکے سے زینب کے بستر کے قریب آئ اور دھیرے سے بے بی یعنی اس کی گڑیا کو اس کے بازؤں سے نکالا زینب دیکھو اگر تم اسکول کے لیے نہیں اٹھی تو میں اس گڑیا کو کھول کر اس کی ساری روئ نکال کراس سے کشنس بنا لوں گی نہیں ......مما آپ ایسا کچھ نہں کریں گی زینب چیختی ہوئ اٹھ بیٹھی آہاں بدما ش تم پہلے سے جاگ رہی تھی نا چلو اب فٹا فٹ ریڈی ہو جاؤ ورنہ تمہاری بے بی اب بھی میرے ہاتھ میں ہے
ہاں ہاں .... اٹھ رہی ہوں لیکن پہلے آپ میری بے بی کو مجھے دے دیں نہیں پہلے تم تم تیار ہو جاؤ اوکے ....ہمممم اوکے آج ہفتے کا کا دن تھا اور زینب بھی خوشی خوشی اسکول جانے لگی وہ اس لیے کیوں کے کل ہو لی ڈے تھا ...............رات کو کھا نے کے بعد صبا اپنے کمرے میں بیڈ پر ایک ڈائری لیے بیٹھی تھی اس کے کے برابر میں اس کا اسد بھی بیٹا تھا وہ اس ڈائری کو روز پڑھتی تھی اور اسے پڑتےہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آتے اسد جب بھی اس یہ پوچھتا کہ اس ڈائری میں میں ایسا کیا ہے کہ صبا جب بھی تم اس ڈائری کو پڑھتی ہو تو رونے کیوں لگ جاتی ہو تو وہ ہمیشہ بات کو ٹال دیتی اور اس کو کہیں چھپا کے رکھا کرتی تھی آ ج کے دن بھی جب اسد نے صبا سے اس بارے میں پوچھا تو اس نےپھر ٹالنے کی کوشش کی لیکن اسد نےآج اس بارے جاننے کی ٹھان لی تھی اسد نے صبا کے ہاتھ سے ڈائری چھین لی صبا نے ڈائری واپس لینے کی بہت کوشش کی لیکن اسد نے ڈائری نہ دی تو صبا کو مجبوراًاسد کو سب کچھ بتانا پڑا.....اسد اس ڈائری میں کیا میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن پر پلیز یہ مجھے دے دو اسد نے اسے ڈائری واپس دے دی ................اسد میں نے تمہیں کبھی اپنی فیملی کے بارےمیں کچھ نہیں بتا یالیکن آج میں تمہیں سب بتاتی ہو میرے ابّو پہلے بہت سخت مِزاج ہوا کرتے تھےہم دو بہنیں تھں ایک میری بڑی بہن مہر اور میں سب سے آخری تھی ہمارے والد ہم سے بہت پیار کرتے تھے ہماری ہر وہ خواہش پوری کیا کرتے تھے جو ان کے اصولوں کے مطابق ہواگر ہم غلطی سے بھی کسی ایسی خواہش کا اظہار کرلیتے جو ان کے اصولوںکے مطابق نہ ہو تو وہ ہم سے مہینوں تک ناراض رہتے تھےمہر آپی ہمارا بہت خیال رکھتی تھی اور اسی وجہ سے ہمارے با با سب سے زیادہ اسے پیار کرتے ہمارے بابا پندرہ سال سے زائد عمر کی لڑ کی کے گھر سے باہر جانے کہ سخت خلاف تھے ہماری آپی کی عمر ابھی چودہ سال تھی ہماری آپی کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ تعلم حاصل کرکے ایک اچھی اور مشہور شخصیت کی مالک بنے لیکن افسوس کہ اس کی یہ.. علم کی خواہش پوری نہ ہو سکی وہ علم سے اتنی محبت کرتی تھیں کے وہ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی مختلف ٹوپکس پر مطالعہ کرتی رہتی اور ہر وہ نئ بات جو سیکھتی ابّو کے ساتھ شیئر کرتی اور ابو کے سامنے بڑی بڑی باتیں کرتی مجھے آج بھی یادہے کہ مہر ابو کو ایک حدیث سنا یا کرتی تھی کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی الّلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا مرد ہو یا عورت ہر مسلمان پر فرز ہے ماں کی گود سے لیکر قبر کی مٹی تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیےوہ ابو سےتعلیم کے متعلق جو بات کرتی اس کے بعد وہ انہیں یہ حدیث ضرور سناتی لیکن مہرآپی کا مقصد پورا نہ ہوتا جس کے لیے وہ ایسا کرتی تھی وہ جا نتی تھی ہمارے ابو ایک لڑکی کےتعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیھں لیکن شاید وہ ابوسے بھی زیادہ علم سے محبت کرتی تھی وہ جب سے چودہ سال کی ہوئ ہر وقت الجھی الجھی مضطرب رہا کرتی تھی اس کے ایٹ کلاس کے اگزام ہونے والے تھے اور وہ ان پر توجو نہیں دے پارہی تھی وہ ہر وقت بس اسی بارے میں سوچتی رہتی کے اگر ابو کو نا منا پائ تو مرا کیا ہوگا بڑی مشکلو ں سے اس نے اگزیمس کی تیاری کی اور الّلہ کی مہربانی سے وہ ہمیشہ کی طرح فرسٹ پو زیشن آئ پر وہ اپنے اسکول کی ٹوپر تھی پر اس بار جب وہ فرسٹ پوزیشن آئ تو اسے کچھ زیا خوشی نہیں ہوئ وہ تو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ ابو مجھے اسکول جانے دیں گے بھی کہ نہیں رات کو وہ اپنے بستر پر سوچوں میں گم سم لیٹی ہوئ تھی اس لمحے کو یاد کر رہی تھی جب ابو نے اس سے کہا تھا کہ تم صرف آٹھ جماعتیں پڑھ پاؤ گی یہ بات اس وقت تو اس نے ٹال دی تھی چوںکہ یہ بات اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھی لیکن اب وہ اس وقت کو نہیں ٹال سکتی تھی وہ بڑ بڑاتے ہوئے روتے ہوئے خود سے نا جانے کیا کیا کہے جارہی تھی لیکن اس کا وہ آخری لفظ جو میں سنا تھا .............مممم ....میں کل اسکول نہیں جا پاؤں گی میں....جو کہ ..اپنے اسکول کی اپنی کلاس کی ٹو پر ہو میں اسکول نہیں جا پاؤں گی یا الّلہ ایک ایسی لڑکی جس نے بچپن سے لے کہ اب تک ایک بھی دن اسکول مس نہیں کیا وہ روتے ہوئے یہ الفاظ کہ رہی تھی مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہاتھا کہ یہ کوئ ....خواب ہے یا حقیقت ....ایک ایسی با ہمت لڑکی اس طرح سے کیسے رو سکتی ہے اسے دیکھ کراس وقت میں بھی رونے لگی اور اس نے مجھے روتا دیکھ اپنے پاس بلایا اور مجھے اپنے گلے لگائے بیٹھی رہی اور سسکیاں لیتی رہی اور پتا نہیں کب ہم دونوں کی آنکھ .لگ .گئ........صبح ہو چکی تھی سورج بھی نکل چکا تھا دنیا روز کے معمول کی طرح آج بھی چل رہی تھی لیکن جب میں نے اپنے آس پاس دیکھا تو آپی مجھے کہیں نظر نہیں آئ ابھی میری نظر ادھر اُدھر آپی کو ڈھونڈ ھ ہی رہیں تھی تو میں نےآپی کو کمرےمیں آتے دیکھا آپی نے یورنی فارم پہنا ہوا تھا میں خوشی سے اٹھ کڑی ہوئ آپی....کیا آپکو ابو نے اسکول جانے کی اجازت دے دی ان کے چھرے پر اب بھی مایوسی تھی ....نہیں بیٹا اب تک ابو کا سامنا ہی نہیں ہوا لیکن مجھے پورا یقین ہے ابو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں وہ مجھے مایوس نہیں کریں گے اس کی اس امید نے مجھے بھی دلا دی کہ شاید ہماری آپی ابو کے ان اصولوں کو بدل ڈالے جو ایک نا ممکن بات تھی لیکن بار بار خودکو تصّلی دینے کے لیے یہ الفاظ کہتیں کہ میرا دل نا امّید تونہیں ہے نا الّلہ ملک ہے ابھی وہ یہ الفاظ بولتے ہوئے کتابیں سمیٹ کر بستے میں ڈال ہی رہی تھی کہ ابو آگئے ابو آکر مہر کے پاس کھڑے ہوئے اور ان سے کہنے لگے کہ دیکھو بیٹا اب تم ہو گئ ہو بہت بڑی تم نے آٹھ جماعتیں ممکل کرلیں اب تم پڑھا ئ چھوڑ دو ویسے بھی لڑکیا پڑھ لکھ کر کیا کر لیں گیں مہر کو اس لفظ سے سخت نفرت تھی لیکن وہی لفظ جب اس نےاپنے لیے اپنے ابو کے منہ سے سنا تو وہ خاموش نہ رہ سکیں...کیوں ابو کیا لڑکیا پاگل ہوتیں ہیں یا ان کے پاس دماغ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں آپ مجھے ہی دیکھ لی جیے بچپن سے لے اب تک فرسٹ پوزیشنس ہی لیتی آرہی ہو نا ......بس مہر میں نے کہہ دیا نا تم اسکول نہیں جاؤ گی تو بس نہیں جاؤ گی یہ میرا آخری فیصلہ ہے ..لیکن ابو ......مہر کے الفاظ اس بے بسی میں ادھورے رہ گئے مہر آپی اس وقت روتی رہی امی اسے روتا ہوا دیکھ نہیں پارہی تھی اس نے مہر کی ہمایت میں ابو سے کہا اسے جانے دیجیے نا اسکول ہماری بچی باقیوں جیسی نہیں ہے وہ آ پ کا نام روشن کرے گی لیکن ابو نے امی کو بھی یہی کہتے ہوئے چپ کرا دیا یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے میں بھی اس وقت ابو امّی کے کمرے میں آگئ ہم سب ابھی خاموشی سے بیٹھے ہی تھےکہ کہ اچانک سے کسی کے گر نے کی آواز آئ ابو نے مجھ سےکہا صبا ذرا جا کر دیکھوں تو پھر کیا ہوگیا میں نے جب جاکر کر دیکھا تو آپی نیچے فرش پر پڑی تھیں ان کی پوری بازو خونم خون تھی آپی بے خوش تھیں میں نےذور سےچلّائ ابو ..امّی جلدی سے یہاں آئیں مہر آپی نے اپنی نس کاٹ لی ہے جلدی آئیں آپی..... آپی اٹھ جاؤ پلیز ..... آبو امّی بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے کیا ہوا کیا ہوامیری بچی امّی چیخ ہوئ مہر کے پاس آئیں مہر ..مہر بیٹا اٹھ اٹھ جاؤ میری بچی مجھے پتا نہیں تھا کہ تعلیم تمہیں اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے ابو نے جب مہر کی حالت دیکھی تو اپنے تمام اصول بھول گئے ابو اٹھ جائیں یہ وقت رونے کا نہیں ہے اٹھ جائیں مہر آپی کو ہوسپٹل لے جائیں پلیز....... ہاں اٹھو ...اٹھو جلدی .****امّی آکر ابو کہ پاس بیٹھں آپ فکر مت کیجیے ہماری مہر ٹھیک ہو جائے گی زوہرا بیگم پلیز تم اس کے لیے دعا کرو تم تو اس کی ماں ہو نہ اور ماں کی دعا تو الّلہ تعالٰی فوراً سنتا ہے امّی بھی مہر کے لئے بہت پریشان تھیں بار بار رو رو کر الّلہ سے دعائیں مناگ رہیں تھیں ..دیکھیے نعمان صحاب مہر میری بھی بچی ہے لیکن آپکو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ جیسے ہی مہر کی تبیعت بہتر ہوگی آپ اسے اسکول جانیں دیں گے زوہرا بیگم مجھے معاف کردو میری عقل پر پردہ ڈل گیا تھا میری بیٹی کی آنکھوں میں تعلیم کیلئے جو محبت جو جزبہ تھا وہ میں نہیں دیکھ پایا تم ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھی نا کہ ہماری بچی باقیوں جیسی نہں ہے میں ہی نہیں سمجھ پایا واقعی ہماری بیٹی سب سےمختلف ہے ابھی امّی اور ابو آپس میں گفتگوں کرہی رہے تھے ڈوکٹر آگیا ابو فواً کھڑے ہو گئے ڈوکٹر...صاحب میری بچی ٹھیک تو ہے نا اسے کچھ ہوگا تو نہیں نا پلیز ڈوکٹر میری بچی کو ٹھیک کر دیجیے.. آپ جتنے پیسے کہے گے دینے کو تیار ہوں بس آپ میری بچی کو ٹھیک کردیجیے ...دیکھیے جناب آپ فکر مت کیجیے آپ کی بیٹی بلکل ٹھک ہے اسے حوش بھی آچکا میں آپ سے یہی کہنے کے لیئے آیا تھا کہ آپ اب اپنی بیٹی سے مل سکتے ہیں .......یا الّلہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تونے میری بچی کو ٹھیک کر دیا دیکھو زوہرا بیگم تم اس کی ماں ہو ناں تمہاری دعائیں رنگ لے آئیں ہیں ڈوکٹر صاحاب آپ کا بہت بہت شکریہ ..ارے جناب آپ ہمارا شکریا بعد میں کر لیجیے گا پہلے آپ اپنی بیٹی سے جا ملیے وہ جب سےحوش میں آئ ہے آپ ہی کا نام لے رہی ہے ......مہر دھیمی آواز میں ابو ابو پکار رہی تھی ..جی میری بچی تم ٹھک تو ہو نا مجھے معاف کردو میری بچی میں تمہیں سمجھ نہیں پایا ....مہر نے آکسیجن ماسک اتار کر ابو سے کہا ابو آپ نے مجھے کیوں بچایا مجھے مرجانے دیتے نا ویسے بھی ہے وہی انسان جو جاہل نہیں تو انسان تعلیم کے بغیر حیوان کی مانند ہوتا ہے میں اپنی ساری زندگی ان پڑھ بن کر گزارنا نہیں چا ہتی تھی اسی لیے میرا مر جانا ہی بہتر تھا.....نہیں میری بچی ایسا مت کہو اگر خدا نا خواستا
تمہں کچھ ہو جاتاتو تو میرا کیا ہوتا تمہاری بہن تمہاری ماں ہم سب کا کیا ہوتا ایک تم ہی تو تو ہو جو ہمیں سنبھالتی ہو ہم سب میں سے تم سب زیادہ بہادر ہو اور ہاں یہ تم کیا کہ رہی تھی ہے وہی انسان جو جاہل نہیں دیکھوں میری بچی تم ایک بہادر اور ایک اچھی انسان ہو اور لو مس مہر میں بھی تم سے وعداکرتا ہوں کہ اب میں تمہیں صرف ایک انسان نہیں رہنے دوں ..ککککیا ابو .. میرا مطلب یہ ہے میں تمہیں ایک اچھی پڑھی لکھی با شعور شخصیت کا مالک بناؤں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے مہر آپی خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہی تھی کیا ...وقعی ابو آئ لو یو ابو لو ٹو میری شیرنی لیکن یہ یہ جو تم تم نے نس کاٹنے والی حرکت کی ہے اس کے بارے میں تماری کیا رائے ہے کیا تمہارے نزدیک یہ بیوقوفوں والی حرکت نہیں ہاں جانتی ہوں کی واقعی بیوقوفوں والی حرکت ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگر میں نے زندگی میں ک بھی کوئ بے وقو فی کی بھی تو وہ میرے کام آگئ ...امّی اورمیں بھی مہر
کے پاس آگے گئے بد ماش ....تم بہت زد ہو آخر اپنی نہیں زد پوری کر ہی لی نا ناں زوہرا بیگم ناں اسے مہر کی زد مد مت کہو یہ تو شاید میرےلیے ایک سبق تھا الّلہ کی جانب سے ******آج وہ بے حد خوش تھی آج اس چہرے پر ایک اطمینان اس کے ہوٹوں پر ہلکی سی مسکان اور آج کے پُر اطمینان دن نے اس کے خوبصورت چہرے کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا وہ مسکراتی ہوئ خوشی خوشی اپنے اسکول کی تیاریاں مکّمل کر رہی تھی مہر آپی جلدی کیجیے ہم لیٹ ہورہے ہیں ہاں ہاں صبا بس میں ابھی آئ..مہر اپنے چہرے پر مسکان سجاتی ہوئ کمرے سے نکل رہی تھی کے سامنے ابو اور امّی کھڑے تھے اس وقت جو الفاظ ابو نے کہے تھے وہ آج میرے ذہن نشین ہیں ..مہر بیٹا آج میں تمہیں ایک دعا دیتا کہ تم ہمیشہ اپنے چہرے پر ایسی ہی مسکان سجائے اپنی کامیابی کی سیڑھیا چڑھتی جاؤ اور میں تمہیں اپنی نیک دعاؤں کے ساتھ گھر سے رخست کرو ایک مضبوط باب کی طرح نہ ایک بے بس باب کی طرح جو کہ اپنی بیٹیوں کو رلاتے ہوئے اور خود بھی روتے ہوئے سَسُرال رخصت کرتے ہیں ..ہا ہا ابو آئ لو یو میں بھی آپ سے وعدہ کرتی ہوں کے آپ کے اس بلند سر کو مزید بلند کردوں گی.. انشاالّلہ بیٹا مجھے تم سے یہی امید ہےاوکے ابو اب میں چلتی ہوں مہر آپی اور میں خوشی خوشی گھر سے نکلے ہمدونوں راستے کے پر کشش مناظر کو دیکھتے جارہے تھے آپی نے مجھ سے کہا کہ وہ دیکھو صبا سامنے بکس کی ریڑھی تم یہی رکو میں ابھی آئ آپی میراہاتھ چھڑا کرآگے چل پڑی کہ سامنے سے ایک ٹرک آرہا تھا****امّی آپی کی لاش پر اپنا کندھا رکھے بے حال پڑیں تھیں انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی بیٹی کے غم میں روئوں یا بیوہ ہونے کا ماتم منا ؤں ہمارے وہ ابو جنہوںنے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر اپنے ان اصولوں کو بھی توڑ ڈالا جنہیں کبھی بھی نہ توڑنے کی ابونے قسم کھا رکھی تھی جب اسی بیٹی کے ٹرک کے نیچے آکر مر جانے کی خبر سنی تو اپنی جان سے بھی پیاری بیٹی کے جدائ کے صدمے میں ابو بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور تب سے اب تک میری ماں نے مجھے تنہا پالا پوسا اور بڑی مہنتوں سے ڈوکٹر بنایا مہر آپی کے جانے بعد امّی نے قسم کھا رکھی تھی کے تھی کہ وہ مجھے ایک قابل انسان بنائیں گیں میری آپی کا جو خواب ادھورا رہ گیا اسے وہ ذرور پورا کریں گیں صبا ایک سینیئر ڈوکٹر تھیں جس کا اپنا ایک ہوسپیٹل تھا پتا ہےتمہیں اسد میں زینب کی پڑھائ پر اتنا زور کیوں دیتی ہوں خود اس کا خاص خیال کیوں رکھتی ہوں کیوں کہ یہ خوش نصیبی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے امیری میں تعلیم حاصل کرنا اور بنا کسی کی روک ٹوک کہ میری آپی جوکہ علم طالب کی ایک بہت بڑی مثال تھیں ان پر پہلے روک ٹوک تھی اور جب آزادی ملی تو الّلہ نے ہماری کو ہم سے لے لیا اور ایک میں بد نصیب جس ساری زندگی بنا باپ کے سائےکے غریبی میں تعلیم حاصل کی لیکن الّلہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تعلیم جیسی نعمت سے نوازا اور ایک زینب جیسی رحمت سے جسے تو پڑھنے لکھنے کا کوئ شوق ہی نہیں میں بس دن رات الّلہ یہی دعائیں مانگتی ہو یا الّلہ تو ہماری زینب کو کو علم کا طالب بنادے اور سیرتاً بلکل اپنی خالا جیسا اسد نےلنمبی ساہس لیتے ہوئے کہا آمین الّلہ مہر آپی درجات بلند کرے گا آمین *****,,صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا آج کا دن دن بہت ہی زیادہ خوبصورت تھا موسم بھی کافی دلکش تھا صبا کی آنکھ کھلی تو صبح کے نو بج چکے تھے صبا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا او میرے خدایا اتنا وقت ہوگیا ہے ہممممم آں ارے آج سنڈے ہے چلو شکر ہے زینب بھی بڑے مزے سے سو رہی ہوگی الّلہ ہدایت دے اس لڑکی کو باقی ہمارے تو بس کی بات نہیں..... صبا نے صبا نے بریک فاسٹ کی ٹیبل سجا دی تھی تب تک اسد بھی بھی اٹھ چکا تھا صبا نے اسد کو آوز دیتے ہوئے کہا اسد ناشتہ تیار ہے جلدی آجائیں میں ذرا زینب کی خیریت معلوم کر کہ آ تی ہوں ہاں ہاں آرہا ہوں صبا جب زینب کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے پہلی نظر اس کے بستر پر ڈالی توزینب اپنے بسر پر موجود نہیں تھی اف ناجانے کہا چلی گئ یہ لڑکی صبا نے ادھر ادھر نظر گھماتے ہوئے دیکھا تو زینب فرش پر ڈھیروں کتا بیں پھیلائے بیٹھی تھی اور اپنا ہوم ورک کر رہی تھی وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف تھی کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہو پایا صبا زینب کے قریب آکر بولی اومیرے الّلہ یہ کوئ خواب ہے یا حقیقت میری زینب پرنسز زینب سنڈی کو صبح نو بجے بستر میں آرام کرنے کے بجائے کام کرہی ہے مجھے یقین نہیں آرہا کوئ چٹکی کاٹو مجھے زینب نے شرارت بھرے انداز میں صبا کو چٹکی کاٹی آہ.....بس بس..ہاں اب آگیا نا یقین مّما کل آپ نے مجھ سے میری بیبی لی تھں اور دیکھیے ابھی تک واپس نہیں کی اچھا سوری نا میری جان میں تمہں تمہاری بیبی واپس کردوں گی پر یہ بتاؤ کہ تم میں اتنا بڑا چینج کیسے ...مّما زینب نے صبا کی بات کاٹتے ہوئے کہا آپ کو پتا ہے رات کو میں اپنی بیبی لینے آئ تھی پھر آپ دونوں کچھ باتیں کر رہے تھے..زینب مزاق مت کروچلو میرے ساتھ اور چل کر ناشتا کرو ایک پل کے لیئے صبا کے ذہن میں بہت سے خیال آئے الّلہ کہیں زینب نے ہماری ساری ساری باتیں سن تو نہیں لیں نہیں صبا نے اپنے ذہن میں آنے والے تمامخیارات کو جھنجھڑ دیا اور زینب کو لے کر چلی گئی......ناشتے کی میز پر خاموشی تھی سب چپ چاپ ناشتا کر رہے تھےکہ زینب اور صبا دونوں اچانک سے ایک ساتھ بول پڑیں ...اسد آپ کو ایک بات پتا ہے ....ابو آپ کو ایک بات پتا ہے ارے بھائ کیا ہوگیا ہے ایک ایک کر کےبولوامّی پہلے آپ ہی کہیے اسد آپ کو پتا ہماری بچی راہ راست پر آگئی ہے میں جب صبح اس کے کمرے میں گئ تو یہ بڑے آرام سے......کیا آرام سے...بڑے آرام سے آرام نہیں کرہی تھی بلکہ کام کر رہی تھی ارے واہ واہ بھائ یہ تو بہت بڑا کمال ہو گیا زینب نے کہا با با اگر آپ نے شکر ادا کر لیا تو میں اپنی بات کہوں ...او میرے خدایا بابا ہاں ہاں میری بچی اب تو تم جو کہو گی ہم خاموشی سے سنیں گے ...با با آپ کو پتا ہے میری بے بی آپ کے کمرے میں ہے اور میں جب رات کو آپ کہ کمرے میں آئ تو آپ لوگ کچھ بات کر رہے تھے زینب نے ماں کی طرف متوجہ ہوکر کہا ما ماں آپ بہت بری ہیں آپ کو پتا میری ایک کلاس فیلو ہے الینا اس سے اس کی خالا اتنا پیار کرتی ہے وہ مجھے بتاتی اور بدلے میں میں خاموش ہو جاتی ہوں اور میری بھی ایک خالا تھیں زینب کی باتیں سن کر صبا کے جو جس پی رہی تھی وہ اس کے گلے میں اٹک گیا جس کی وجہ سے اسے کھانسی آگئ دھیان سے مّما ......ممّا ویسے میری خالابھی جینیس تھیں وہ کہا کرتیں تھی نا کہ ہے وہی انسان جو جاہل نہیں تو اب میں بھی تو اب میں بھی خود سے اور آپ سب سے یہ وعدہ کرتی ہو علم سے اتنی محبت کروں گ جتنی میری جینیس خالا نے بھی نہیں کی ہوگی اور جیسے وہ پڑھ لکھ کر اچھی مشہور اورعظیم شخصیت کی مالک بننا چاہتیں تھیں بلکل ویسی ہی بنو گی صبا اور اسد اس کی اتنی بڑی بڑی باتیں سن کر حیران رہ گئے تھے اور اب تک تو وہ سمجھ ہی چکے تھے کے پرنسز زینب اتنی اچھی اچھی باتیں کیسے کر رہی تھی اسد اور صبا بے حد خوش تھے کہ ان کی زینب بلکل ویسی بن چکی ہے جیسا وہ چاہتے تھے زینب اپنے ماں باپ کی باتیں سن چکی تھی اور سمجھ بھی چکی تھی آج سب بہت خوش تھے اور موسم بھی خوشگوار تھا اس لیئے صبا نے ڈسائیڈ کیا کہ وہ آج آؤٹنگ پر جائینگے
© All Rights Reserved