صبر جنت ہے
از قلم
شمع الہی
"صبر جنت ہے"
" غم دوراں نے،
ایسے غم بخشے
جن کا عشق بھی۔۔
مرہم نہیں"
"بہو بیگم ناشتہ ملے گا ہمیں یا بھوکا ہی رہنا ہو گا"
آسیہ بیگم اپنے تخت پر بیٹھیں بڑی ناگواری سے چلائیں
" جی امی جان!"
اس پر پہلی نگاہ ڈالنے والا بھی با آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ وہ تکلیف میں ہے،
بکھرے حلیے، مرجھائے چہرے میں وہ بہت ٹوٹا وجود لگ رہی تھی
مگر آسیہ بیگم سمجھ کر اور تلخ ہو گئیں
"نا جی ہماری ہمت کے ہم آپ پر حکم کرے، ہم کہہ رہے تھے اس غریب کو ناشتہ ملے گا بھی یا نہیں"
"میں ناشتہ ہی بنا رہی تھی"
وہ دھیمے ٹوٹے لہجے میں بولی
"ناشتہ بنا رہی تھی تو گویا ہم پر احسان کر رہی تھی٬ ارے میں کہتی ہوں یہ ناشتہ کون سی صدی میں ملے گا"
آسیہ بیگم تلخی سے چلائیں
وہ ضبط کرتے ہوئے پلٹ کر فورا کچن میں گھس پڑی،
تیزی سے ڈائنگ ٹیبل کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے اس کے ڈوپٹہ کی جنبش کی وجہ سےایکدم کنارے پر رکھا کانچ کا گلاس زمین بوس ہوا۔
"ستیاناس ہومنحوس کا۔۔۔"
گلاس ٹوٹنے کی آواز آسیہ بیگم کے کان پر آئی تو وہ بھڑک اٹھیی
"جب سے اس گھر میں قدم رکھا ہے ہر چیز ٹوڑ ٹوڑ کر ختم کر گئی، میرا بس چلے تو اس منحوس کو ایک لمحہ بھی اس گھر میں ٹکنے نہ دوں مگر نجانے کیا میرے بیٹے پر جادو ٹونا کر رکھا ہے اس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا"
آسیہ بیگم کی گل افشانیاں وہ بڑےضبط سے سن رہی تھی جو کچن میں تک صاف سنائی دے رہا تھا
"بانجھ نا ہو تو"
مگر ان کا آخری حقارت سے بھرا جملہ اسے ڈھا گیا
پورے وجود میں درد کی ایک تیز لہر ڈوڑ گئ تھی
یہ جملہ"بانجھ" پچھلے پانچ سال سے تقریبا ہر ایک کی زبان سے سنتے آرہی تھی اور جب بھی سنتی نئے درد اور اذیت سے گذرتی تھی
"حنہ" سن ہو تے وجود کے ساتھ اس نے شوہر کی پکار سنی جس میں ناگوریت صاف اس نے محسوس کی اپنے بکھرے وجود کو دوبارہ سمیٹ کر وہ بیڈ روم کی طرف بھاگی اور بیڈ روم کی طرف جاتے وقت ٹیبل کے قریب سے گذرتے وقت گلاس کے بکھرے کانچ میں سے ایک کانچ کا نوکیلا ٹکڑا پیر میں گھس گیا تھا "آہ۔۔" ہلکی سی کراہ نکلی مگر اسے نظر انداز کر گئی اندرونی تکلیف اتنی تھی کہ باہر کی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوئی
"کیا ہوا عبود؟" بیڈ روم کے درمیان میں کھڑا تیکھے تیوروں کے ساتھ شوہر اسے ہراسا کر گیا-
"میرا بلیک شرٹ کہاں ہے؟" لہجے میں غصے لپک تھی
"وہ---وہ تو دھلا نہیں ہے"
وہ سہمے لہجے میں بولی
"کیا----؟" وہ دھاڈ اٹھا
"کون سے آسمانوں کی سیر کرتی ہو کہ گنتی کے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتے" وہ بری طرح جھلائے ہوئے الماری کی جانب گھوما " امی جان صحیح کہتی ہیں" الماری میں گھسےاس کے شوہر کی آواز اسے صاف سنائی دی تھی
رات بھر نیند کی کوشیش میں دکھتے سر اور آنکھوں کا درد اور بڑھا تھا جیسے
"امی صحیح کہتی ہیں؟"
"کیا---؟"
وہ ذہن میں دہرا رہی تھی
"بانجھ؟" اور آسیہ بیگم کا آخری جملہ اس کے ذہن میں چمکا
"عبود" اس کے آواز نے بے آواز جنبش کی
وہ بے یقین نظروں سے اپنے محبوب شوہر کا پشت دیکھ رہی تھی
"نئے سرے سے درد دل پر قبضہ کرتا ہوا پورےوجود کو لمحوں میں ٹوڑ ڈالا ضبط پر آخری ضرب پڑی تھی
"ہاں ہاں صحیح کہا آپ نے"
وہ بے ساختہ چیخ پڑی
"آپ کی امی صحیح کہتی ہیں کہ میں منحوس ہوں، سبز قدم ہوں میری منحوسیت اس گھر کو آپ کو برباد کر رہی ہے، آپ کی امی ہی کیا ساری دنیا صحیح کہتی ہیں کہ میں بانجھ ہوں سدا اولاد سے محروم رہوں گی"
وہ ہسٹریا انداز میں چیخنے لگی تھی
"اللہ کرے میں مر جاوں"
اس لمحے اس کا دل دنیا سے اس بری طرح اچاٹ ہوا کہ فورا موت کی شدت سے خواہش ہوئی اور حیرت اور بے یقینی سے سنتا عبود تڑپ کر اسے تھاما تھا
میرے بولنے کا مطلب وہ نہیں تھا حنی مجھے معاف کر دو"
وہ اس کی حالت پر بری طرح تڑپ تڑپ کر معافی مانگے لگا
"نہیں مجھے بتاو میں مرتی کیوں نہیں ہوں کیا فائدہ میرے جینے کا منحوس ہوں بوجھ ہوں پھر بھی کیا فائدہ میرے جینے کا"
وہ تو جیسے اپنے آپ میں ہی نہیں تھی اور اس کی ایسی باتوں پر عبود کی جان نکل نکل جا رہی تھی
"پلیز حنی ایسی باتیں مت کرو" وہ اسے جھنجوڑا تھا
"مجھے نہیں جینا کیا فائدہ ایسی زندگی کا جو مجھے میرا بچہ نا دیں
مجھے مرنا ہے عبود نہیں جینا۔۔۔۔"
"حنی۔۔۔ حنی۔۔۔ پلیز ۔۔۔"
عبود تڑپ تڑپ کر اسے سنبھالنے کی کوشیش کر رہا تھا مگر حنہ اس کے ہاتھوں میں جھول گئی
عبود بری طرح خوف ذدہ ہوا اپنی حنی کے کھو نے کے خوف نے اس کی دل کی دھڑکنوں کو جیسے کیسی نے چھین لیا تھا
"حنی۔۔۔۔" گود میں اٹھا کر بستر پر لٹا تے ہوئے اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کا چہرہ آنسوں سے بھر رہا تھا وہ اونچا پورا شاندار سا مضبوط جوان رو...
شمع الہی
"صبر جنت ہے"
" غم دوراں نے،
ایسے غم بخشے
جن کا عشق بھی۔۔
مرہم نہیں"
"بہو بیگم ناشتہ ملے گا ہمیں یا بھوکا ہی رہنا ہو گا"
آسیہ بیگم اپنے تخت پر بیٹھیں بڑی ناگواری سے چلائیں
" جی امی جان!"
اس پر پہلی نگاہ ڈالنے والا بھی با آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ وہ تکلیف میں ہے،
بکھرے حلیے، مرجھائے چہرے میں وہ بہت ٹوٹا وجود لگ رہی تھی
مگر آسیہ بیگم سمجھ کر اور تلخ ہو گئیں
"نا جی ہماری ہمت کے ہم آپ پر حکم کرے، ہم کہہ رہے تھے اس غریب کو ناشتہ ملے گا بھی یا نہیں"
"میں ناشتہ ہی بنا رہی تھی"
وہ دھیمے ٹوٹے لہجے میں بولی
"ناشتہ بنا رہی تھی تو گویا ہم پر احسان کر رہی تھی٬ ارے میں کہتی ہوں یہ ناشتہ کون سی صدی میں ملے گا"
آسیہ بیگم تلخی سے چلائیں
وہ ضبط کرتے ہوئے پلٹ کر فورا کچن میں گھس پڑی،
تیزی سے ڈائنگ ٹیبل کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے اس کے ڈوپٹہ کی جنبش کی وجہ سےایکدم کنارے پر رکھا کانچ کا گلاس زمین بوس ہوا۔
"ستیاناس ہومنحوس کا۔۔۔"
گلاس ٹوٹنے کی آواز آسیہ بیگم کے کان پر آئی تو وہ بھڑک اٹھیی
"جب سے اس گھر میں قدم رکھا ہے ہر چیز ٹوڑ ٹوڑ کر ختم کر گئی، میرا بس چلے تو اس منحوس کو ایک لمحہ بھی اس گھر میں ٹکنے نہ دوں مگر نجانے کیا میرے بیٹے پر جادو ٹونا کر رکھا ہے اس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا"
آسیہ بیگم کی گل افشانیاں وہ بڑےضبط سے سن رہی تھی جو کچن میں تک صاف سنائی دے رہا تھا
"بانجھ نا ہو تو"
مگر ان کا آخری حقارت سے بھرا جملہ اسے ڈھا گیا
پورے وجود میں درد کی ایک تیز لہر ڈوڑ گئ تھی
یہ جملہ"بانجھ" پچھلے پانچ سال سے تقریبا ہر ایک کی زبان سے سنتے آرہی تھی اور جب بھی سنتی نئے درد اور اذیت سے گذرتی تھی
"حنہ" سن ہو تے وجود کے ساتھ اس نے شوہر کی پکار سنی جس میں ناگوریت صاف اس نے محسوس کی اپنے بکھرے وجود کو دوبارہ سمیٹ کر وہ بیڈ روم کی طرف بھاگی اور بیڈ روم کی طرف جاتے وقت ٹیبل کے قریب سے گذرتے وقت گلاس کے بکھرے کانچ میں سے ایک کانچ کا نوکیلا ٹکڑا پیر میں گھس گیا تھا "آہ۔۔" ہلکی سی کراہ نکلی مگر اسے نظر انداز کر گئی اندرونی تکلیف اتنی تھی کہ باہر کی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوئی
"کیا ہوا عبود؟" بیڈ روم کے درمیان میں کھڑا تیکھے تیوروں کے ساتھ شوہر اسے ہراسا کر گیا-
"میرا بلیک شرٹ کہاں ہے؟" لہجے میں غصے لپک تھی
"وہ---وہ تو دھلا نہیں ہے"
وہ سہمے لہجے میں بولی
"کیا----؟" وہ دھاڈ اٹھا
"کون سے آسمانوں کی سیر کرتی ہو کہ گنتی کے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتے" وہ بری طرح جھلائے ہوئے الماری کی جانب گھوما " امی جان صحیح کہتی ہیں" الماری میں گھسےاس کے شوہر کی آواز اسے صاف سنائی دی تھی
رات بھر نیند کی کوشیش میں دکھتے سر اور آنکھوں کا درد اور بڑھا تھا جیسے
"امی صحیح کہتی ہیں؟"
"کیا---؟"
وہ ذہن میں دہرا رہی تھی
"بانجھ؟" اور آسیہ بیگم کا آخری جملہ اس کے ذہن میں چمکا
"عبود" اس کے آواز نے بے آواز جنبش کی
وہ بے یقین نظروں سے اپنے محبوب شوہر کا پشت دیکھ رہی تھی
"نئے سرے سے درد دل پر قبضہ کرتا ہوا پورےوجود کو لمحوں میں ٹوڑ ڈالا ضبط پر آخری ضرب پڑی تھی
"ہاں ہاں صحیح کہا آپ نے"
وہ بے ساختہ چیخ پڑی
"آپ کی امی صحیح کہتی ہیں کہ میں منحوس ہوں، سبز قدم ہوں میری منحوسیت اس گھر کو آپ کو برباد کر رہی ہے، آپ کی امی ہی کیا ساری دنیا صحیح کہتی ہیں کہ میں بانجھ ہوں سدا اولاد سے محروم رہوں گی"
وہ ہسٹریا انداز میں چیخنے لگی تھی
"اللہ کرے میں مر جاوں"
اس لمحے اس کا دل دنیا سے اس بری طرح اچاٹ ہوا کہ فورا موت کی شدت سے خواہش ہوئی اور حیرت اور بے یقینی سے سنتا عبود تڑپ کر اسے تھاما تھا
میرے بولنے کا مطلب وہ نہیں تھا حنی مجھے معاف کر دو"
وہ اس کی حالت پر بری طرح تڑپ تڑپ کر معافی مانگے لگا
"نہیں مجھے بتاو میں مرتی کیوں نہیں ہوں کیا فائدہ میرے جینے کا منحوس ہوں بوجھ ہوں پھر بھی کیا فائدہ میرے جینے کا"
وہ تو جیسے اپنے آپ میں ہی نہیں تھی اور اس کی ایسی باتوں پر عبود کی جان نکل نکل جا رہی تھی
"پلیز حنی ایسی باتیں مت کرو" وہ اسے جھنجوڑا تھا
"مجھے نہیں جینا کیا فائدہ ایسی زندگی کا جو مجھے میرا بچہ نا دیں
مجھے مرنا ہے عبود نہیں جینا۔۔۔۔"
"حنی۔۔۔ حنی۔۔۔ پلیز ۔۔۔"
عبود تڑپ تڑپ کر اسے سنبھالنے کی کوشیش کر رہا تھا مگر حنہ اس کے ہاتھوں میں جھول گئی
عبود بری طرح خوف ذدہ ہوا اپنی حنی کے کھو نے کے خوف نے اس کی دل کی دھڑکنوں کو جیسے کیسی نے چھین لیا تھا
"حنی۔۔۔۔" گود میں اٹھا کر بستر پر لٹا تے ہوئے اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کا چہرہ آنسوں سے بھر رہا تھا وہ اونچا پورا شاندار سا مضبوط جوان رو...