...

11 views

صبر ‏جنت ‏ہے
از قلم
‎شمع ‏الہی

"صبر جنت ہے"

" غم دوراں نے،
ایسے غم بخشے
جن کا عشق بھی۔۔
مرہم نہیں"

"بہو بیگم ناشتہ ملے گا ہمیں یا بھوکا ہی رہنا ہو گا"
آسیہ بیگم اپنے تخت پر بیٹھیں بڑی ناگواری سے چلائیں
" جی امی جان!"
اس پر پہلی نگاہ ڈالنے والا بھی با آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ وہ تکلیف میں ہے،
بکھرے حلیے، مرجھائے چہرے میں وہ بہت ٹوٹا وجود لگ رہی تھی
مگر آسیہ بیگم سمجھ کر اور تلخ ہو گئیں
"نا جی ہماری ہمت کے ہم آپ پر حکم کرے، ہم کہہ رہے تھے اس غریب کو ناشتہ ملے گا بھی یا نہیں"
"میں ناشتہ ہی بنا رہی تھی"
وہ دھیمے ٹوٹے لہجے میں بولی
"ناشتہ بنا رہی تھی تو گویا ہم پر احسان کر رہی تھی٬ ارے میں کہتی ہوں یہ ناشتہ کون سی صدی میں ملے گا"
آسیہ بیگم تلخی سے چلائیں
وہ ضبط کرتے ہوئے پلٹ کر فورا کچن میں گھس پڑی،
تیزی سے ڈائنگ ٹیبل کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے اس کے ڈوپٹہ کی جنبش کی وجہ سےایکدم کنارے پر رکھا کانچ کا گلاس زمین بوس ہوا۔
"ستیاناس ہومنحوس کا۔۔۔"
گلاس ٹوٹنے کی آواز آسیہ بیگم کے کان پر آئی تو وہ بھڑک اٹھیی
"جب سے اس گھر میں قدم رکھا ہے ہر چیز ٹوڑ ٹوڑ کر ختم کر گئی، میرا بس چلے تو اس منحوس کو ایک لمحہ بھی اس گھر میں ٹکنے نہ دوں مگر نجانے کیا میرے بیٹے پر جادو ٹونا کر رکھا ہے اس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا"
آسیہ بیگم کی گل افشانیاں وہ بڑےضبط سے سن رہی تھی جو کچن میں تک صاف سنائی دے رہا تھا
"بانجھ نا ہو تو"
مگر ان کا آخری حقارت سے بھرا جملہ اسے ڈھا گیا
پورے وجود میں درد کی ایک تیز لہر ڈوڑ گئ تھی
یہ جملہ"بانجھ" پچھلے پانچ سال سے تقریبا ہر ایک کی زبان سے سنتے آرہی تھی اور جب بھی سنتی نئے درد اور اذیت سے گذرتی تھی
"حنہ" سن ہو تے وجود کے ساتھ اس نے شوہر کی پکار سنی جس میں ناگوریت صاف اس نے محسوس کی اپنے بکھرے وجود کو دوبارہ سمیٹ کر وہ بیڈ روم کی طرف بھاگی اور بیڈ روم کی طرف جاتے وقت ٹیبل کے قریب سے گذرتے وقت گلاس کے بکھرے کانچ میں سے ایک کانچ کا نوکیلا ٹکڑا پیر میں گھس گیا تھا "آہ۔۔" ہلکی سی کراہ نکلی مگر اسے نظر انداز کر گئی اندرونی تکلیف اتنی تھی کہ باہر کی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوئی
"کیا ہوا عبود؟" بیڈ روم کے درمیان میں کھڑا تیکھے تیوروں کے ساتھ شوہر اسے ہراسا کر گیا-
"میرا بلیک شرٹ کہاں ہے؟" لہجے میں غصے لپک تھی
"وہ---وہ تو دھلا نہیں ہے"
وہ سہمے لہجے میں بولی
"کیا----؟" وہ دھاڈ اٹھا
"کون سے آسمانوں کی سیر کرتی ہو کہ گنتی کے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتے" وہ بری طرح جھلائے ہوئے الماری کی جانب گھوما " امی جان صحیح کہتی ہیں" الماری میں گھسےاس کے شوہر کی آواز اسے صاف سنائی دی تھی
رات بھر نیند کی کوشیش میں دکھتے سر اور آنکھوں کا درد اور بڑھا تھا جیسے
"امی صحیح کہتی ہیں؟"
"کیا---؟"
وہ ذہن میں دہرا رہی تھی
"بانجھ؟" اور آسیہ بیگم کا آخری جملہ اس کے ذہن میں چمکا
"عبود" اس کے آواز نے بے آواز جنبش کی
وہ بے یقین نظروں سے اپنے محبوب شوہر کا پشت دیکھ رہی تھی
"نئے سرے سے درد دل پر قبضہ کرتا ہوا پورےوجود کو لمحوں میں ٹوڑ ڈالا ضبط پر آخری ضرب پڑی تھی
"ہاں ہاں صحیح کہا آپ نے"
وہ بے ساختہ چیخ پڑی
"آپ کی امی صحیح کہتی ہیں کہ میں منحوس ہوں، سبز قدم ہوں میری منحوسیت اس گھر کو آپ کو برباد کر رہی ہے، آپ کی امی ہی کیا ساری دنیا صحیح کہتی ہیں کہ میں بانجھ ہوں سدا اولاد سے محروم رہوں گی"
وہ ہسٹریا انداز میں چیخنے لگی تھی
"اللہ کرے میں مر جاوں"
اس لمحے اس کا دل دنیا سے اس بری طرح اچاٹ ہوا کہ فورا موت کی شدت سے خواہش ہوئی اور حیرت اور بے یقینی سے سنتا عبود تڑپ کر اسے تھاما تھا
میرے بولنے کا مطلب وہ نہیں تھا حنی مجھے معاف کر دو"
وہ اس کی حالت پر بری طرح تڑپ تڑپ کر معافی مانگے لگا
"نہیں مجھے بتاو میں مرتی کیوں نہیں ہوں کیا فائدہ میرے جینے کا منحوس ہوں بوجھ ہوں پھر بھی کیا فائدہ میرے جینے کا"
وہ تو جیسے اپنے آپ میں ہی نہیں تھی اور اس کی ایسی باتوں پر عبود کی جان نکل نکل جا رہی تھی
"پلیز حنی ایسی باتیں مت کرو" وہ اسے جھنجوڑا تھا
"مجھے نہیں جینا کیا فائدہ ایسی زندگی کا جو مجھے میرا بچہ نا دیں
مجھے مرنا ہے عبود نہیں جینا۔۔۔۔"
"حنی۔۔۔ حنی۔۔۔ پلیز ۔۔۔"
عبود تڑپ تڑپ کر اسے سنبھالنے کی کوشیش کر رہا تھا مگر حنہ اس کے ہاتھوں میں جھول گئی
عبود بری طرح خوف ذدہ ہوا اپنی حنی کے کھو نے کے خوف نے اس کی دل کی دھڑکنوں کو جیسے کیسی نے چھین لیا تھا
"حنی۔۔۔۔" گود میں اٹھا کر بستر پر لٹا تے ہوئے اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کا چہرہ آنسوں سے بھر رہا تھا وہ اونچا پورا شاندار سا مضبوط جوان رو رہا تھا اور کیوں نا روتا یہ آنسوں ہی تو دلیل تھے اس بات پر کہ اسے اپنی بیوی سے پیار ، محبت، الفت نہیں بلکہ عشق تھا چاہے ساری دنیا اسے کچھ بھی کہتی اس کی ماں آسیہ بیگم سمیت،
وہ حنہ کو بستر پر لٹا کر فورا سیل فون پر فیملی ڈاکٹر کو کال ملایا۔۔۔۔
__________________________


‏شدید ڈپریشن کا شکار ہے ذہنی حالت بہت خراب ہے اس کا پتہ تم اس سے لگا سکتے ہو کہ نجانے کب سے اسے پیر میں کانچ چبھا ہے مگر اس کا اسے احساس ہی نہیں ہے،
میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ اس کا خیال رکھو مگر شاید تم اسے کھونا چاہتے ہو" ڈاکٹر ذوبیہ احمد حنہ کے پیر کا ڈریسنگ کرتے ہوئے اسے سخت خفگی سے کہہ رہیی تھیں
"نہیں مجھے اس طرح کہنا چاہئے کہ یہی حالت تمہاری بیوی کی رہی تو تم اسے پاگل پاؤ گے یا کھو دوگے
عبود جو پیلا چہرہ لئے یک ٹک انجیکشن کے زیر اثر سوتی حنہ کو دیکھ رہا تھا ڈاکٹر ذوبیہ احمد کی باتیں سن کر اس کا چہرہ خوف سے سفید ہوا
اس کا چہرہ دیکھ کر ڈاکٹر ذوبیہ احمد کا سخت چہرہ نرم ہوا وہ اس کا کاندھا تھپتھاپائیں
"تم ہی محبت سے اسے ٹھیک دکھ سکتے ہو"
ڈاکٹر ذوبیہ احمد صرف فیملی ڈاکٹر ہی نہیں تھی بلکہ عبود کی سگی پھو پی بھی تھی
حنہ جانتی تھی کہ عبود اس کی وجہ سے کتنا پریشان ہے ایک طرف اس کی ماں جیسے بھی مگر عبود اسے اپنی جان سے بڑھ کر چاہتا تھا مگر وہ خود کا کیا کر تی
شادی ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا کہ اس کی ساس نے اٹھتے بیٹھتے شکوے شروع کر دیے تھے پھر جیسے جیسے دن گذرتے گئے اس کی ساس کے طعنوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کے لوگوں نے بھی طعنے دینے شروع کر دیے تھے
اسے بچے شروع ہی سے بے حد پسند تھے اس نے پلاننگ کر رکھا تھا کہ اسے کتنے بچے چاہہیے، وہ ان کا کیا کیا نام رکھے گی اور وہ اپنے مستقبل میں کیا بنے گے مگر اپنے اطراف کے لوگوں کے طعنے سن سن کر وہ خوف ذدہ ہو نے لگی تھی
بے تحاشا نماز ، دعائیں، وظیفے، منتیں کر کر کے تھک گئی تھی اور واقعی وہ دھیرے دھیرے مایوسی اور نا امید ہو نے لگی تھی خود سے آس پاس والوں سے اللہ سے۔۔۔

سب سے پہلے امید اللہ سے ختم ہوئی تو دل سے جیسے روشنی ختم ہو گئی اور پھراس نے اللہ کو چھوڑ دیا
پانچ سال ہو ئے تھے اس کی شادی کو اور دھیرے دھیرے جیسے وہ پاگل پن کی طرف بڑھ رہی تھی
ہر احساس ختم ہو رہا تھا محبتوں کا بھی۔۔۔۔
عبود کی چاہتیں، تسلیاں، باتیں جیسے کچھ بھی کام نا کر رہا تھا اور نا ہی اثر رکھ رہا تھا
اور آج جب عبود نے بے حد منت سے اسے اپنے دوست کے یہاں چلنے کی ریکویسٹ کی تو وہ اس کی نم آنکھوں کو دیکھ کر انکار نہیں کر پائی۔
اور اب چائے پینے کے بعد مغرب کی آذان ہوئی تو عبودکا دوست اسد اسے اپنے ساتھ گھسیٹ کر نماز کے لئے لے جا رہا تھا
"یار جب تو نے میرے کہنے پر بھابھی کو عائشہ(اسد کی بیوی) سے ملانے لایا ہی ہے تو اللہ کے بعد اپنے اس دوست پر یقین رکھ کہ جو کہتا ہے کہ بھابھی دل میں روشنی کے ساتھ تیرے ساتھ لوٹی گیں"
اسد اپنے دوست کو اتنا افسردہ اور تکلیف میں دیکھ کر پورے یقین سے یقین دہانی کروارہا تھا۔
نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئے عبود سے کچھ مانگا ہی نہیں گیا
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا مانگےمگر آنکھوں سے آنسوں تڑپ تڑپ کر بہ رہے تھے دل کا کرب جیسے آنسوں کی شکل میں فریاد کر رہا تھا اور جس سے فریاد کی جا رہی تھی اس سے بڑھ کر دل کے کرب کا جاننے والا کون ہو سکتا ہے بھلا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ بڑے دنوں بعد عائشہ بھابھی کے اسرار پر اس در پر پھر سے جھک رہی تھی جس در سے مایوس ہو کر یا نجانے شکوے کی وجہ سے نظریں پھیر چکی تھی
اور اب دل کی عجیب حالت تھی سب سے ہے کر نا دکھ والی نا مایوسی جیسی اور نا ہی خوشی جیسی ہر جذبات سے ہٹ کر دل کی حالت ہو رہی تھی اور دل پر جیسے کوئی اجنبی سا احساس دستک دے رہا تھا۔
"حنہ کیا میں آپ سے کوئی بات کر سکتی ہوں؟"
عائشہ بھابھی دعا مانگنے کے بعد جائے نماز پر ہی اس کی جانب متوجہ ہوئیں
"جی کیوں نہیں؟" دل کی عجیب حالت سے گھبرا کر وہ فورا ان کے جانب متوجہ ہوئی جن کا چہرہ نور سے دمک رہا تھا
وہ پہلی مرتبہ عائشہ سے مل رہی تھی مگر عائشہ ایسی ہستی تھی کہ کوئی بھی اس سے ملے اسے عائشہ سے ضرور محبت ہو جائے اسے بھی اتنے سے وقت میں عائشہ کے اخلاص ،نرم میٹھی باتیں ، مسکراہٹوں سے محبت ہو گئی تھی عجیب سی جادوئی طبیعت تھی عائشہ کی۔
"حنہ آپ نے کبھی میڈیسین(دوائی) کی بوتلوں پر لکھا ہوا دیکھ ہے ‏Shake well before use(استعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح ہلالو)"
"ہاں کیوں نہیں" وہ عائشہ کے سوال پر حیران سی اقرار کی۔
"تو یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالی کے یہاں بھی یہی سنت ہے کہ جس بندے کو انعام سے نوازنا ہوتا ہے انعام دینے سے پہلے اسے اچھی طرح آزماتے ہیں"
اور حنہ جیسے ساقط سی ہو گئی تھی ایک پل کے لئے۔۔۔
"کب تک آزمائے گا؟ ہاں کب تک آپ کا اللہ آزمائے گا ہمیں، خبر ہو کہ ہاں بھئی اب ہماری آزمائش ختم ہو جائے گی مگر نہیں یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ آزمائش کے ختم ہو نے کا پتہ نہیں مگر خود کے آزمائش سے پہلے ختم ہو نے کا یقین ہو نے لگتا ہے"
وہ بڑی تنفر سے کہہ رہی تھی اس کے آنکھوں سے آنسوں بڑی خوبصورتی سے بہہنے لگے تھے ہاتھ لرز نےلگے تھے۔
عائشہ نے نرم سی مسکاہٹ سے اس کے کانپتے ہاتھوں کو تھاما تھا
"پہلی امتوں پر بھی آزمائش اتنی شدید ہوئی کہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ
ان کو تنگدستی، مفلیسی،
اور تکالیف پہونچی اتنی پہچی کہ انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا گیا،
یہاں تک کہ اللہ کے رسول اور ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئینگی"
عائشہ کی نرم سی آواز اسے سن کر رہی تھی یا بیدار اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ہاں مگر اس کے دل پر جو اجنبی سا احساس دھیرے دھیرے دستک دے رہا تھا وہ دستک بہت ذور شور سے ہو نے لگا تھا
"تو حنہ یہ تو دستور خدا ہے کہ جب وہ کسی اپنے کو آزماتا ہے کسی معاملے میں تو اسے انعام سے نوازنا ہوتا ہے اور کیا آپ جانتی ہے اس کا انعام کیا ہے؟"
عائشہ کے سوال پر حنہ کا سر میکانکی انداز میں نفی میں ہلا مگر عائشہ وہی نرم مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی
"اللہ کا انعام جنت ہوتا ہے اس جنت اللہ کا ایسا انعام ہے کوئی انسان اس کی خوبصورتی ، لذت، زینت، اور نجانے کیا کیا ہے جنت میں اس کے بارے میں نا سوچ سکتا ہے نا تصور کر سکتا ہے اور نا ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذر سکتا ہے"
"اور جو انسان صبر نہیں کرتا شکر نہیں کرتا ہے اللہ اس سے وہ چیز بھی چھین لیتا ہے جو اس کے پاس ہے"
عائشہ کی آخری بات پر حنہ کی سانسیں رکی تھی
"عبود"
وہ نفی میں سر ہلا رہی تھی آنسوں اتنی تیزی سے بہہ رہے تھے کہ عائشہ کا چہرہ بھی نظر نہیں آرہا تھا
"حنہ اللہ آپ کو آزما رہا ہے تو آپ صبر لیجئے اور صبر کا بدلہ جنت کے ہو ہی نہیں سکتا اور جنت ایسا ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا"
دستک رک چکی تھی کیوں کہ دل کا دروزہ کھول چکا تھا وہ پورے دل سے بے حد شرمندگی ، ندامت، اور محبت سے اس کے سامنے سجدے میں گر گئی تھی
بے تحاشا تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی جیسے پانچ سالوں کا کرب بہا رہی ہو
دل و دماغ جیسے دھیرے دھیرے شانت ہو رہا تھا وہ جیسے کسی کے محبت کے حصار میں تھی
"اے اللہ! اگر آپ ایسا ہی میرے لئے چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے میں میں ایسی ہی رہنے کو تیار ہوں بس آپ کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتی" وہ مسرور دل سے سر اٹھا کر بھیگی بھاری پلکوں کو اٹھائی تو سامنے اس کے زندگی کا ساتھی تھا اللہ کے جانب سے سب سے قیمتی تحفہ۔
اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ ناشکر ہو گئی تھی
"اففف کتنی بری تھی وہ اور اس کا اللہ کتنا مہربان۔۔۔'"
اسے اب صبر کو چننا تھا چاہے جنت ملے نا ملے کیوں کہ صبر تو وہ اللہ کے لیے چن رہی تھی اور جو اللہ کو اللہ کے لئے چنتا ہے انھیں طلب جنت کب ہوتی ہے۔۔۔
__________________________



دو سال بعد۔۔۔۔
وہ ایک سالہ خوبصورت سا بچہ تھا بے حد خوبصورت،
اس میں کیا زیادہ خوبصورت تھا یہ طئے کرنا مشکل تھا شاید آنکھیں یا لب یا مسکراہٹ ، آنکھوں میں چمکتا آنسوں یا سینے میں دھڑکتا دل۔۔۔۔
کوئی ایک نظر اسے دیکھے تو یہ یقین کرے کہ دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ ہے۔
جب وہ ہوا تھا تو دادی نے خوشی سے حلق پھاڑ پھاڑ کر روتے ہوئے بچے کو سینے سے لگا یا چپ کرانے کی کوشیش کی مگر چپ ہی نہیں ہوا
دادی سے اسے نانی نے لئے مگر پھر بھی وہ چپ نہیں ہوا نانی سے خالہ نے لئے خالہ سے نانا نے پھر پاپا نے بھی لیے مگر نجانے بچے کو تکلیف کیا تھی وہ خاموش نہیں ہو اور نا ہی اس کی اینرجی کم ہوئی۔
"عجیب ہے کوئی اتنا بھی روتا ہے"
پاپا نے کہتے ہوئے بچہ ماں کی گود میں ڈال دئے
اور حیرت انگیز طور پر بچہ نا صرف چپ ہوا بلکہ اپنی آنکھوں کو پورا کھول کر ماں کا چہرہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا وہاں موجود سب نا صرف حیران ہوئے بلکہ مبہوت ہو گئے
اور ماں کے منہ سے بے ساختہ نکلا
"جنت۔۔۔جنت الرحمن"
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اگر اس بچے کو کوئی دوسرا اس کی ماں کے سامنے لیتا تو وہ ماں کے پاس جانے کے لئے بلکل بھی ضد نہیں کرتا تھا
روتا نہیں تھا
بلکہ وہ یک ٹک ماں کو اس انداز میں دیکھتے رہتا کہ دوسروں کو خود احساس ہو تا کہ وہ اس بچے پر ذیادتی کر رہے ہیں اسے ماں سے دور کر کے
عموما بچے ماں سے بہت محبت کرتے ہیں مگر اس بچے کی محبت اپنی ماں سے دیکھ کر سامنے والا حیرت سے دنگ رہ جاتا تھا
جب وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا اسے آدھی رات کو بھوک لگی اس نے ماں کو پہلو میں تلاش کیا مگر وہ نا ملی وہ اٹھ بیٹھا اپنے بستر سے مشکل سے اترتے ہوئے وہ لڑکھڑاتے قدموں سے بیڈ تک گیا جہاں ماں سوتی ہو ئی نظر آ رہی تھی
اسے بھوک لگ رہی تھی وہ ماں کو کیسے اٹھا ئے
کیا وہ رونا شروع کر دیے، نہیں ماں پریشان ہو جائے گی وہ ڈگمگاتے قدموں اور بیڈ کا سہارا لئے ہوئے ما ں کے پیروں تلے تک گیا تھا بیڈ کے کنارے رکھے ماں کے پیروں کے تلوے پر ہونٹ رکھدیا تھا، معصوم ننھے ننہے ہونٹوں کے لمس کو محسوس کر کے ماں فورا اٹھی اور اسے پیروں کے پاس اس طرح کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئی
وہ جتنا بڑا ہوتا جا رہا تھا اس کی ماں سے محبت بڑتی ہی جا رہی تھی۔
وہ تین چار سال کا تھا جب اسے کوئی چوٹ آ ئی تھی وہ اتنا ہی روتا تھا کتنے عام بچے روتے اسے اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی کتنے عام بچوں کو ہوتی مگر جیسے ہی ماں سامنے آتی ہر تکلیف ختم ہو نے لگتی آنسوں تھم جاتے اور مہویت ہو نے کا یہ عالم ہوتا کہ ماں کے پیارے اور خوبصورت چہرے کو دیکھ نے کے علاوہ کسی چیز اور شئے کا احساس نہیں ہوتا۔۔۔
ان کی پوری فیملی مع رشتے داروں کے پہاڑی علاقے پر آوٹنگ کے لئے گئے تھے جبھی جنت الرحمن کو سانپ نے ڈس لیا تھا فیملی ڈاکٹر عبود کی خالہ بھی ساتھ تھیں جو اپنے فرسٹ ایڈ باکس کے ساتھ آئے تھیں
انہوں نے فورا ٹریٹمینٹ کے لئے اس حصے سے اوپر رومال باندھ کر اس حصے کو چیرا تھا تاکہ زہریلا خون نکل جائے بڑے سے بڑا بھی کوئی شخص ہوتا تو آنسوں ضرور نکل آتے مگر پانچ سال کے بچے کی ساری توجہ اپنی محبوب ماں کی جانب تھی
جو خوف سے رو رہی تھی
"پلیز مما جان مت روئے ۔۔۔آپ رو کیوں رہی ہیں؟"بے شک وہ تڑپ تڑپ جا رہا تھا ماں کی آنسوں سے
وہ بھول گیا تھا کہ وہ خوف ذدہ تھا اسے درد ہو رہا تھا یاد رہا تو اتنا کہ ماں رو رہی ہیں
"بیٹا آپ کو درد تو ہو رہا ہو گا ناں"
ڈاکٹر ذوبیہ احمد بہت محبت اور بے قراری سے پوچھ رہی تھی
"کیسا درد؟" اس کی ماں کو پاپا نے خاموش کروا دیے تھےاب وہ بھی پرسکون تھا اور پانچ سالہ جنت الرحمن کے منہ سے یہ بات سن کر پہلے تو سب حیران رہ گئے پھر مسکرا پڑے
وہ سب اچھی طرح جانتے تھے اس کے لئے اس کی ماں ناں صرف آنکھوں کی ٹھنڈک تھی بلکہ ہر تکلیف و درد کی دوا بھی تھی جب ماں سامنے ہوتی ہر چیز کھو جاتی درد تکلیف ہو یا انسان۔۔فرماں برداری کا یہ عالم تھا کہ وہ نہا چکا ہوتا مگر اگر اس کی ماں اس کے دوسرے بھائی ، بہن کو کہتی کہ جاو نہا لو جاکر سب تو وہ بھی فورا بھاگتااور دوبارہ نہا کر آتا "ابھی تو تم نہا کر آئے تھے پھر کیوں نہانے بھاگےتھے؟"
دادی تعجب سے پوچھتی حالانکہ اب تو انہیں اس پر تعجب کرتے رہنے کی عادت ڈال لینی تھی
"مما جان نے کہا تھا" وہ بہت عقیدت سے کہتا
"مگر تمھاری مما جان نے تو انہیں کہا تھا جنھوں نے نہایا نہیں تھا"
"مما جان نے" سب"کہا تھا اور میں بھی تو وہی تھا میں کیسے ان کی بات نظر انداز کر دیتا"
وہ بڑی خفگی سے انہیں دیکھتا
وہ تو سب کی جان تھا کیوں نا ہوتا وہ تھا ہی ایسا کہ اس سے محبت ہو جائے ہر ایک کی اتنی چھوٹی سی عمر سے ہی فکر کرنے والا، ادب تمیز تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، بے حد سمجھ دار کہ اس چھوٹے سے بچے کی سمجھدارانا باتیں سن کر لوگ دنگ رہ جاتے ہر برائی سے دور بھاگتا تھا
بچوں کو موبائیل، کمپیوٹر، ٹی وی، کارٹون سے تو بے حد دلچسپی رہتی تھی مگر وہ ان کے قریب بھی نہیں جاتا تھا
ہاں جب ماں فجر میں اٹھتی تو وہ بھی اٹھتا تھا بغیر کسی کے بو لے نماز کو بھا گتا اور نماز پڑھ کر فورا گھر آجاتا جانتا تھا کہ ماں نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتی ہیں وہ وہی سامنے بیٹھ کر بڑی دلچسپی سے سنتا اور ماں کا چہرا تکتا تھا
اور زہین اتنا تھا کہ صرف سننے سے یاد ہو جاتا فوٹوگرافک میموری تھا
ہر کوئی یہ جان گیا تھا کہ یہ معمولی بچہ نہیں ہے اور نا ہی اسے معمولی کام کرنے ہے خاص کر اس کی ماں کو۔۔۔
ہاں س کی ماں حنہ کو،
حنہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے چاروں بچوں میں(تین لڑکے اور ایک لڑکی) سے پہلا بچہ اس کے صبر کا بدلہ تھا جنت۔۔
اور عائشہ نے صحیح کہا تھا کہ جنت ایسا انعام ہیں کہ کسی کے خواب و خیال میں بھی اس کا تصور نہیں ہو گا
اس کا جنت بھی ایسا ہی تھا وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ اس کو اتنے نیک ، فرماں بردار ، عشق کرنے والی اولاد سے نوازے گا
مگر بات وہی ہے ناں
"جو سوچوں سے بھی اوپر کی چیز ہے اسے ہی تو جنت کہتے ہیں"

تمت با الخیر


‏~Shama ilahi ‎(#Taherati)