...

14 views

کلامِ ‏فیض ‏اور ‏میں
فیض سے میری پہلی ملاقات آج سے پانچ چھ سال پہلے اس کی شاہکار غزل

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شُکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہیں اگر حالات وہاں،دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں، کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں ، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے،جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

کے زریعے ہوئی فیض کے اکا دکا اشعار کے مطالعہ کے ساتھ ہی یہ سلسلہ اس وقت مزید بڑھا جب میں نے اردو ادب کو اپنایا پھر قدم قدم پہ فیض کا کلام میری نظر سے گزرنے لگا یوں تو شاعری سے میری ہم مزاجی شروع سے ہے مگر فیض نے مجھے الگ انداز سے متاثر کیا شاعری مجھے سب کی پسند آ جاتی ہے مگر فیض کے کلام میں مجھے عجب طرح کی دل کشی نظر آئی اس کے الفاظ اس کے اشعار اس کی تراکیب اس کے مفاہیم نہ جانے کیوں مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں
اس سلسلے میں اس کی ایک مشہور زمانہ نظم"مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ" کا مطالعہ میرے تعلیمی سفر میں ایک انوکھا تجربے کی حیثیت رکھتا ہے مذکورہ نظم کا یہ شعر

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

کو پہلی بار پڑھ کہ پہلے مصرعے سے مجھ سمیت ہم سبھی کو فوراً فیض سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ واقعی زمانے میں محبت کے سوا اور بہت سے دکھ ہیں ان دکھوں کی ایک طویل داستاں ہے ہر امیر غریب کالا گورا مرد عورت نیز کوئی بشر یہاں تک کہ حاکمِ وقت بھی اس داستان سے لا تعلقی کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہر کسی کو دکھوں کی اس طویل داستان میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے تبھی جا کہ یہ داستان داستان بنتی ہے۔
مگر اسی شعر کا اگلا مصرع جب میں نے پہلی بار پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ وصل کی راحت سے بڑھ کہ اور کون سی راحت بلکہ راحتیں ہیں جن کا ذکر فیض نے کیا ہے کیوں کہ شاعروں اور عاشقوں کے نزدیک تو وصالِ ہی سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی راحت ہوتی ہے سو فیض کے اس مصرعے نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا میں
نے سوچا بہت سوچا شعروں کو پڑھا ناولوں میں دیکھا مگر ہر جگہ مجھے وہی اپنا خیال نظر آیا کہ وصال یار سے بڑھ کر کوئی راحت نہیں ہوتی اس کی خاطر تو انسان ہر حد سے گزر جاتا ہے عشق کی دنیا میں وصال یار ہی سب کچھ ہوتا ہے بس۔۔۔۔۔۔
مگر فیض نے کن راحتوں کا ذکر کیا ہو گا یہ سوال سوال ہی رہ گیا میں نے سوچا کیوں نا جس کا بیان ہے اسی سے جا کے پوچھ لیا جائے سو میں یہ سوال لے کے فیض کے حضور حاضر ہو گئی اور عرض کی حضرت آپ ہی فرما دیجیے کہ زمانے میں وصل کی راحت سے بڑھ کے بھی بھلا کوئی راحت ہے؟؟؟
مجھے محسوس ہوا فیض میرے سوال پہ مسکرائے ہوں گے مگر مجھے میرے سوال کا جواب دیا کلامِ فیض کے چند ہی صفحات نظر سے گزرے تو فیض کا جواب واضح ہوتا گیا مجھے سمجھ آتی گئی میں حیراں بھی ہوئی پریشاں بھی اور آخر میں مجھے فیض سے متفق ہونا پڑا
کلام فیض کی شکل میں فیض نے مجھے جو جواب دیا وہ آخر میں بتاؤں گی مگر اس سے پہلے فیض کے کلام سے وہ چند مثالیں جن سے مجھے میرا جواب ملا وہ عرض کرتی چلوں کہ ساری بات واضح ہو جائے

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے ترے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دل دار نظر کی شبنم
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
(یاد)

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم

ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دل زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردن مہتاب میں باہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شُکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

"مثالوں سے فیض کا جواب واضح ہے اور وہ جواب ہے "یاد "تصور" یا "خیال"۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں فیض کے ہاں جہاں ایک طرف تنہائی کا احساس با کثرت پایا جاتا ہے وہیں وہ تصور یا خیال یا یاد کی دنیا آباد کر لیتے ہیں یہ وہ راحت ہے جو وصل سے زیادہ لذت آمیز ہوتی ہے یہ وہ راحت ہے جو ہجوم میں تنہائی میں دن میں رات میں کبھی بھی کہیں بھی انسان کے تخیل کے راستے سے محظوظ کرنے آجاتی ہے
غرض فیض کے کلام میں بہت کچھ ہے وہ آفاقی بھی
عوامی بھی احتجاجی بھی رومانی بھی رجائی بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فیض کے کلام میں "تصور" ایک نمایاں رجحان ہے یوں تو تصور کا موضوع ہر شاعر کے ہاں پایا جاتا ہے مگر فیض کا نظریہ تصور مجھے سب سے منفرد اور دلکش لگا اور اس نے مجھے بے حد متاثر کیا جو چیز اسے میسر نہیں ہوتی وہ اس چیز کے تصور میں جی لیتا ہے یہ تصور اس حد تک گہرا اور وسیع ہوتا ہے کہ اصل چیز سے زیادہ اثر رکھتا ہے یہ تصور ہی ہے جو اسے کس بھی کیفیت میں ناامید نہیں ہونے دیتا تنہائی کے عالم میں اداسی کے لمحوں میں زنداں و سلاسل میں تصور ہی فیض کے لیے راحت کا سامان ہے اور یہ ان کے کلام کی ایک واضح اور نمایاں جہت بھی ہے
فیض سے متفق ہونے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ:

لذتِ عشق جو ہجر میں ہے وصال میں کہاں
اس درد میں چھپی راحت کسی کے خیال میں کہاں


© صائمہ الفت ؔ ‏