...

25 views

"کہانی ایک ذہین بچے کی"

‎یوں تو اس دور میں تعلیم کا رواج بہت کم تھا بہت کم جدت پسند یا امراء لوگ ہی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اس دور میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں ایک ذہین بچہ نذیر بھی تھا جو ایک متوسط طبقے کا بچے تھا بچپن ہی سے وہ بہت ذہین اور محنتی تھا آٹھویں جماعت تک کامیابی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد میٹرک میں اس نے اپنے بڑے بھائی کے کہنے پر سائنس گروپ کا انتخاب کیا لیکن اس دور کے نظام تعلیم کی خستہ حالی کا عالم یہ تھا کہ جس سکول میں نذیر میٹرک سائنس گروپ سے کر رہا تھا وہاں سائنس کا کوئی استاد موجود ہی نہ تھا سکول کے دیگر مضامین کے اساتذہ ہی کبھی کھبار سائنس پڑھا لیتے تھے لیکن نذیر ہمیشہ اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے اپنے تیئں کیمسٹری فزکس ریاضی جیسے مضامین کو سمجھتا اور پڑھتا تھا یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال بیت گیا اور امتحانات کے دن آ گئے ایسے جیسے کر کے ساری کلاس نے امتحان دے دیے۔ امتحانات کے نتائج حالات کے مطابق ہی نکلے پوری کلاس میں سے صرف تین طالب علم کامیاب ہوئے انہی تین کامیاب ہونے والے طالب علموں میں ایک نام نذیر بھی تھافیل ہونے والوں میں یوں تو تقریبا ساری کلاس ہی شامل تھی لیکن انہی میں ایک نام علاقے کے بڑے چودھری کے بیٹے کا تھا جو اتفاق سے نذیر کا پڑوسی تھا بڑے چودھری صاحب کو جب پتہ چلا کہ اس کا بیٹا فیل اور ساتھ والوں کا لڑکا پاس ہو گیا ہے تو بڑے چودھری صاحب نے ملازم بجھوا کر نذیر کو اپنے ڈھیرے پر بلایا وہ یقینا امتحانات اور ان کے نتائج کے بارے میں جانتا چاہتا تھا تاکہ اس کے بیٹے کی ناکامی کی وجہ تلاش کر سکے ادھر نذیر چودھری صاحب کا پیغام پاتے ہی چل پڑا اور کچھ ہی دیر میں اس چودھری کے ڈھیرے پہ پہنچ گیا جہاں جانے سے بڑے بڑے مرد نالاں تھے چودھری صاحب نے فورا ہی نذیر کو اپنا مدعا بتایا کہنے لگے سنا ہے تم امتحانات میں پاس ہو گئے ہو تم مجھے دو سوالوں کے جواب دو ایک تو یہ بتاؤ کہ الجبرا کا عملی اطلاق کہاں ہوتا ہے اور دوسرا یہ بتاؤ کہ تم کیوں پاس ہوئے اور میرا بیٹا جو کہ تمہارا ہی ہم جماعت ہے وہ کیوں فیل ہو گیا
نذیر انتہائی اطمینان سے بولا چودھری صاحب یہاں تک آپ کے پہلے سوال کا تعلق ہے تو میں خود بھی شاگرد ہوں الجبرا کے عملی اطلاق کا تو مجھے علم نہیں لیکن ہاں الجبرا حل کرنا مجھے اچھے سے آتا ہے اور جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے آپ مجھے بتائیں آپ کے پاس یہ دولت کیوں ہے اور ہمارے پاس کیوں نہیں؟ لیجئےنذیر نے چودھری صاحب کے سوال پر الٹا سوال کر دیا چودھری صاحب نذیر کا یہ سوال سن کر حیران ہوئے اور طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے فرمایا یہ تو رب کی دِین ہے ۔۔۔نذیر فورا بولا تو چودھری صاحب یہ بھی رب کی دین ہے
یہ جواب سن کر چودھری صاحب پہ سکتہ چھا گیا نذیر نے اسے لاجواب کر دیا تھا وہ نذیر کی ذہانت اور فراست سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے نذیر کو حکم بلکہ نذیر سے درخواست کی کہ وہ آج سے اپنے ہی ہم جماعت چھوٹے چودھری صاحب کو پڑھایا کرے نذیر نے چودھری صاحب کی درخواست قبول کر لی اور چھوٹے چودھری کو پڑھانے کا وعدہ کیا۔
محنت ذہانت اور فراست کے ساتھ ساتھ ایک اور غیر معمولی خوبی جو نذیر میں موجود تھی وہ تھی خوش خطی وہ انتہا کا خوش خط تھا اس کی لکھائی دیکھ کر سب حیران ہوتے تھے۔ چونکہ اس دور میں کمپیوٹر یا کوئی ایسی جدید ٹیکنالوجی نہ تھی اس لیے لکھنے کے اکثر کام ہاتھ ہی سے لکھے جاتے تھے چنانچہ ایک بار محکمہ پولیس کو اشتہارات لکھنے کے لیے خوش خط طالب علموں کی ضرورت تھی پولیس افسر علاقے کے مختلف سکولوں میں جا کر ایسے خوش خط طلباء کو تلاش کرتے تھے جو خوش خط ہوں تاکہ ان سے اشتہارات لکھوائے جا سکیں۔ اسی سلسلے میں ایک پولیس افسر نذیر کے سکول میں آیا سکول کے ہیڈ ماسٹر نے اپنے سکول سے دو خوش خط بچوں کا انتخاب کیا ان میں ایک نام نذیر کا تھا چنانچہ دونوں بچوں کو ہیڈماسٹر کے دفتر بلایا گیا بلانے والے نے بچوں کو بتایا کہ دفتر میں پولیس آئی ہوئی ہے اور تم دونوں کو بلا رہی ہے پولیس کا نام سن کر خوف زدہ ہو گئے آج کل کے دور میں بچے پولیس سے نہیں ڈرتے لیکن اس دور میں بڑے آدمی بھی پولیس کے نام سے ڈرتے تھے مائیں اپنے بچوں کو پولیس سے ڈرایا کرتی تھیں یہی وجہ تھی کہ بچے پولیس کا نام سن کر ڈر گئے سوچنے لگے ہم نے تو کوئی بری حرکت بھی نہیں کی اور نہ آپس میں لڑائی کی ہے پھر کیوں ہمیں بلایا گیا ہے۔۔ آخرکار ڈرتے سہمتے دو بچے دفتر جا پہنچے ہیڈ ماسٹر صاحب نے نہایت نرمی سے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ والی کرسیوں پر بیھٹنے کو کہا بچے اب ڈرنے کے ساتھ حیران بھی ہوئے ہیڈماسٹر نے بچوں کو بتایا کہ پولیس افسر آپ کو تھانے لے کر جائیں گے وہاں آپ کو ان کی ہدایت کے مطابق کچھ اشتہارات لکھنے ہوں گے ۔یہ سن کر دونوں کی جان میں جان آئی اور خوف جاتا رہا اور وہ دونوں پولیس افسر کے ساتھ تھانے چلے گئے وہاں بچوں کو کاغذ سیاہی قلم اور دیگر سامان کے ساتھ اشتہارات لکھنے کی ہدایات دے دی گئی دونوں بچے کام میں مشغول ہوگئے کافی دیر کے بعد پولیس افسر نے آ کر وہ اشتہارات چیک کیے اور نذیر کے ساتھ والے بچے کو ڈانٹ کر گھر بھیج دیا کیونکہ بقول پولیس افسر اس نے اشتہارات ٹھیک طرح سے نہیں لکھے تھے نذیر کے لکھے گئے اشتہارات پولیس افسر کو بہت پسند آئے اس نے نذیر کو شاباشی دی اور کل دوباہ آنے کا حکم دیا کیونکہ جو اشتہارات نذیر کے ساتھی نے لکھے تھے وہ دوبارہ نذیر کو لکھنے تھے۔ چنانچہ اگلے دن نذیر وقت مقرر پر پھر تھانے پہنچ گیا آج بھی اس نے ڈھیروں اشتہارات لکھے اور اپنا کام ختم کیا پولیس افسر نے شاباشی کے ساتھ 12 روپے انعام دے کر جو اس زمانے میں اچھی بھلی رقم ہوتی تھی نذیر کو رخصت دی نذیر خوشی خوشی یہ سوچتے ہوئے گھر لوٹا کہ وہی پولیس جو سب سے پیسے لیتی ہے اسی نے آج مجھے اتنے پیسے دیئے ہیں۔

چھوٹے چودھری کا یہ استاد, اپنے دور طالب علمی میں سائنس کے استاد سے محروم یہ خوش خط نذیر بڑا ہو کر اعلی تعلیم حاصل کر کے آج کراچی کے گورئمنٹ سکول میں سائنس کا سینئر استاد ہے
ایک ذہین بچے کی یہ کہانی فرضی یا جھوٹی نہیں بلکہ سچی اور حقیقی ہے اور یہ ذہین محنتی اور قابل بچہ کوئی اور نہیں میرے اپنے تایا ابو ہیں
© صائمہ الفت ؔ ‏