BROKEN HOMES
اُجڑے گھر
_________________
ہمارا معاشرہ ایک مسلم اکثریتی والا علاقہ ہے اور یہاں دیگر مزاہب کی بھی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ مشکل ترین حالات کے باوجود بھی لوگ بڑے مہمان نواز، خوش دل، ملنسار، مددگار اور سب سے بڑھ کر روادار ہیں۔
بحرانی حالات میں جینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے دن بہ دن ایک منفی رجحان یہاں بڑھتا جارہا ہے اور وہ ہے ازدواجی زندگی میں نا خوشگواری۔ حالانکہ یہی وہ تعلق ہے جو دو زندگیوں کو اس طرح جوڑتا ہے کہ جسم الگ الگ لیکن جان اور روح ایک ہوجاتی ہے۔ یہیں سے نسلیں بڑھتی ہیں اور سماج پنپتا ہے اور معاشرہ خوشحالی کی اور چلا جاتا ہے۔
ہمارے سماج میں جو ایک تباہ کُن بُرائی زور پکڑتی جارہی ہے وہ ہے شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں نا اتفاقی، ناخوشگواری اور بالآخر ایک دوسرے سے نفرت۔ رفتہ رفتہ اس کے زیرِ اثر یہ انسانیت کا خوبصورت ترین رشتہ دم توڑ دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف دو انسانوں کی زندگیاں تلخ ہوجاتی ہیں بلکہ دو گھر اور دو خاندانوں کی زندگیاں بھی بے چین ہو جاتی ہیں۔ جہاں اس کے کئی وجوہات ہیں لیکن میں نے جو بہت قریب سے اپنا ایک مشاہدہ کیا ہے وہ ہے،"رشتے کے چُناؤ میں لالچ اور طمع"۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسانیت کو نہیں بلکہ دنیاوی مال و متاع، سوشل سٹیٹس اور ظاہری بناوٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی اچھی پڑھی لکھی ہے تو لڑکا ملازم ہونا چاہیے اور پھر اگر لڑکا یا لڑکی ملازم ہو تو رشتے کے چُناؤ کی پرواز آسمان میں ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کہ سب سے زیادہ اَن بن اور تلخیاں اعلا تعلیم یافتہ یا ملازم طبقے کے جوڑوں میں ہوتا ہے۔میرا یہ ذاتی اور قریبی تجربہ ہے بہت ہی خوبصورت ترین اور بڑے اچھے گھرانوں کی اعلا تعلیم یافتہ لڑکیاں شادی کے بعد روتے بِلکتے اور سِسکتے دیکھی ہیں اور پھر تقدیر سمجھ کر اندھیری زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہیں۔ رشتہ چاہے اپنی پسند ہو یا گھر والوں کی لیکن بنیاد اگر لالچ ہو اور یہ سوچ کر کہ زندگی بن جائے گی ،بر عکس اکثر دیر سویر بگڑ جاتی ہے۔
یہ تلخیاں آخر کار یا تو جُدائی کی صورت اختیار کرتی ہیں یا اگر رشتہ کسی طرح قائم بھی رہے تو زندگی کبھی بھی اصل حالت میں نہیں لوٹتی اور دونوں کی دل ہی دل میں دوٗریاں موجود رہ جاتی ہیں۔ جو کسی بھی طرح رشتے کے اصل مقصد کے لیے موزوں نہیں ہے۔ لہذا اس محبتوں اور راحتوں کے میٹھے رشتے کو اول تا ازل قائم و دائم رکھنے کے لئے اولین ترجیح دھن دولت یا دِکھاوے کو نہیں بلکہ عزت اور وقار، انسانیت اور شرافت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر ابتدا میں ہی رشتے کا چناؤ صحیح معلومات اور جانکاری سے اور لالچ و طمع کو کنارہ کر کے انسانیت کی بنیاد پر کیا جائے تو زندگی گُلزار بن جائے گی اور جنت جیسی معلوم ہوگی۔ تا عمر خوشحالی اور راحتوں کی موجب ہوگی۔
رجا جی