...

3 views

متانت
“نجف بیٹے کدھر ہیں آپ؟“جلدی آئیے”دادا باہر صحن میں کھڑے نجف کو پکار رہے تھے۔ “کیا ہوا دادا جان؟ نجف نے اوپری کمرے سے برامد
ہوتے ہوئے اکتا کر کہا۔ دادا جان نے اپنی لاٹھ کو جس کے سہارے وہ چلا کرتے تھے، کہا “ نجف بیٹے آخر کب آپ سنجیدہ ہوں گے اور پڑھائی
کریں گے؟ دادا جان نے غصے سے اپنے پوتے سے پوچھا جو ّ اب لاپرواہی سے اپنے موبائل پر کسی کو ٹیکسٹ مسجز کرنے میں مصروف تھا۔ “
ّ اب کیا ہوا دادا جان ؟ نجف نے مزید لاپرواہی سے کہا تو غصے سے گویا داداجان کا خون کھول اٹھا۔ انہوں نے اپنی لاٹھ زور سے نجف کی
پیٹھ پر ماری۔ نجف درد سے ہائے ہائے کرنے لگا مگر وہ جانتا تھا بات واقعی سنجیدہ ہے کیونکہ داداجان صرف انتہائی غصے کے عالم میں ہی
اسے لاٹھی سے مارا کرتے تھے۔ داداجان اس وقت بہت غصے میں تھے اور نجف سے کہہ رہے تھے کہ “اس بار اس کی خیر نہیں۔ اسکے کلاس
ٹیچر نے نے گھر آ کر اسکی شکایت کی ہے۔چناچہ اس کو سزا ضرور ملے گی اور اس کی سزا یہ ہے کہ آئیندہ سے نجف کا لیپ ٹاپ داداجان کے
پاس رہے گا اور اگلے سمسٹر تک وہ صرف اپنے کمرے بند ہو کر پڑھائی کرے گا”۔ نجف نے غمگین صورت بنا کر کہا “ دادا جان آپ میرے ساتھ
اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ ایک تو ّامی ّابو یہاں نہیں ہیں اور مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے”۔ داداجان جیسے ہی یہ جملہ سنتے گئے ان کا غصہ
جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ نجف ّ اب باقاعدہ رو رہا تھا۔ دادا جان اب اپنا غصہ بھول نجف کو بہلانے میں لگے تھے۔“ اچھا بیٹے تم کہیں جا رہے
تھے؟ دادا نے نجف سے پوچھا۔ “ ہاں دوست نے بلایا تھا” نجف نے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔ دادا جان نجف کو پچکارتے ہوئے بولے “ جاؤ بیٹا
تمہارا دوست انتظار کر رہا ہو گا”۔نجف دادا جان کو خداحافظ کہہ کر دوست کی طرف چل پڑا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نجف ساتویں جماعت کا انتہائی شرارتی اور لاپرواہ لڑکا تھا۔ کچھ دادا جان کے لاڈ پیار نے اسے مزید بگاڑ دیا تھا۔ پڑھائی نجف کے بس کی
بات نہیں تھی۔ ماں باپ کے ہوتے ہوئے نجف جو ان کی سختی کی وجہ سے جو تھوڑے بہت نمبروں سے پاس ہو جاتا تھا اب دادا کے لاڈ نے وہ
نمبر مزید کم کر دئیے ۔ مگر اس میں نجف کا بھی قصور تھا۔دادا جان نجف پر تب ہی غصہ کرتے تھے جب سکول یا محلے سے اس کی کوئی
شکایت آتی۔ مہینے کی اس ایک آدھ بار کی مار سے بھی نجف ماں باپ کا نام لے کر مگرمچھ کے آنسو بہا کر بچ جاتا تھا۔نجف کے والدین
امریکہ میں کاروبار کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔ نجف کے سکول کی تعلیم ختم ہونے کے بعد دادا جان اور نجف کو بھی وہیں چلے جانا
تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“یار تیرے دادا تو بڑے بھولے ہیں ! نجف کے دوست نے طنز کرتے ہوئے نجف سے کہا۔ “ ہاں یار ویسے ہیں تو بڑے سویٹ” نجف یہ کہتے ہوئے
جیب سے ایک پرچی نکال کر دیکھ رہا تھا۔ نجف کے دوست کامران نے رازداری سے پوچھا “ یار تیاری کیسی ہے ؟۔“ زبردست” نجف نے مسکرا
کر جواب دیا۔ “ یار اس بار تو میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوں گا۔ بنا تیاری کے امتحان میں کامیاب ہونے کا اپنا ہی مزا ہے”کامران نے
طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔نجف نے بھی مسکرا کر تائید کی۔ “ چل یار امتحان شروع ہونے والا ہے”۔ دونوں امتحانی کمرے میں آ گئے۔
امتحان شروع ہوا تو پرچے پر پہلی نظر پڑتے ہی نجف کو پسینے آنے لگے کیونکہ اس کو ان سوالات میں سے ایک بھی سوال کا جواب نہیں
یاد تھا۔ مگر اچانک ہی وہ بالکل مطمئن ہو گیا۔ اس نے اپنے یونیفارم میں سے پرچیاں نکالیں اور جلدی جلدی سوال حل کرنے لگا۔ کامران کا
اندازہ ٹھیک نکلا امتحان میں وہی سوال آئے ہوئے تھے جو کامران نے بتائے تھے۔ کامران کو بھی کسی نے بتائے تھے۔ ابھی اس نے آدھے سوال
ہی حل کئے تھے کہ نگران استاد نے آ کر اسے پکڑ لیا۔ نجف کو کمرہ امتحان سے نکال دیا گیا۔ وہ پرنسپل سر کے آفس میں بیٹھا رہا جب تک کہ
اس کے داداجان نہ آ گئے۔ ّ اب پرنسپل صاحب داداجان کو نجف کے کارنامے بتا رہے تھے اور وہ چپ چاپ بیٹھے سن رہے تھے۔ “ یہ آپ کا پوتا۔
اس کو ماہانہ ٹیسٹوں میں بھی کئی بار وارننگ دی گئی تھی مگر اس نے کسی کی نہ سنی۔ میں نے آپ کو کئی بار بتایا کہ وہ سکول کیا کرتا
ہے۔ مگر آپ ہر بار اس کو بچا لیتے تھے۔ اب مگر معاف کیجئے گا ہم نجف کو اس سکول میں نہیں رکھ سکتے۔ آپ اگے سال اس کو کسی اور
سکول میں ڈال دیجئے گا” داداجان مارے شرمندگی کے کچھ کہہ نہ سکے اور چپ چاپ اٹھ کر چلے آئے۔ راستے میں انہیں وہ دن یاد آ رہا تھا
کہ جب پرنسپل صاحب ان کے گھر آئے تھے اور انہیں نجف کے خراب نتیجے کا بتایا تھا اور کلاس روم میں اس کی شرارتوں اور نقل کا بھی۔
مگر داداجان نے کوئی بات نہ سنی الٹا نجف کا دفاع کرتے ہوئے پرنسپل صاحب کی کوئی بات نہ سنی۔ ّ اب وہ سوچ رہے تھے کہ“ ان کی ذرا
سی لاپرواہی نے نجف کا قیمتی تعلیمی سال برباد کر دیا۔غلطی ان ہی کی تھی”۔ بچوں آپ کو کیا لگتا ہے کہ ذیادہ غلطی داداجان کی تھی کہ
یا نجف کی؟ کبھی کبھار والدین بچوں کو کچھ ذیادہ ہی ڈھیل دے دیتے ہیں اور یہی ڈھیل ان کا مستقبل بھی برباد کر سکتی ہے جیسے بچہ
فیل ہو جائے اور ماں اور باپ کہیں “ کوئی بات نہیں تم نے محنت تو کی تھی چھوڑو اسے آؤٹنگ پر چلتے ہیں”۔ اس طرح کرنا ٹھیک ہے یا یہ
کرنا کہ بچے سے فیل ہونے پر اس کے کمپیوٹر اور ایسی چیزیں جو اسے پڑھائی سے دور کریں، لے کر سخت سزا دی جائے تا کہ بچوں کو معلوم
ہو کہ لاپرواہی اور کام چوری کا کوئی گنجائش نہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے
!
!@مریم ‏حجاب