...

12 views

کیا یہ عشق نہیں ؟
باوجودِ رسوائی و خواری و دل شکستگی
کہتے ہو مجھے عشق نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

باوجود تمہارے اَن گنت مظالم کے اے صنم
دل تم سے بھرتا ہی نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

چھوڑ سکتی تھی تمہارے ہر ستم پہ تمہارا در
میں تو مگر ہلی بھی نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

ڈور محبت کی ٹوٹ جاتی ہے جن مصائب پر
ان کو خاطر میں لایا نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

باوجود تمہاری محبت میں پے در پے شکست کے
میں نے کبھی حوصلہ ہارا نہیں کیا عشق نہیں؟

یک طرفگی کو چھوڑ کر کہیں جا سکتی تھی
خوشی سے کہیں گئی نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

جو رسوائیاں ہوئی ہیں تیرے عشق میں صاحب
مجھے ان کی بھی فکر نہیں کیا یہ عشق نہیں؟

عشق کو بربادی کہتی ہوں اور اپنی اس بربادی پر
مجھے تم سے کوئی گلہ بھی نہیں کیا یہ عشق نہیں؟



© صائمہ الفت ؔ ‏