کیا ہے عشق؟
کوئی رمز نہیں، کوئی ذات نہیں
کوئی ذکر نہیں، کوئی بات نہیں
عنوان نہیں، مذکور نہیں
حالانکہ کوئی دستور نہیں
نہ زیرِ فلک، نہ زیرِ زمیں
ڈھونڈو نہ، تو کیہں بھی نہیں۔
لا محدود سی حد تک ہے۔
ازل سے لے کے ابد تک ہے۔
کہیں گردابِ صحرا، کہیں ہے نالہِ گریہ
کہیں ٹھہرا ہوا پانی، کہیں چلتا ہوا دریا۔
کہیں یہ خوش خصالوں میں۔
کہیں ماتم کے نالوں میں
کہیں ذات سے ہے، کہیں بات سے ہے
کہیں گھور اندھیری رات سے ہے۔
کہیں چاند میں ہے، کہیں بادل میں
کہیں چپ تنہا سے ساحل میں
کہیں شامل کسی زباں میں ہے
کہیں دیکھنے ملتا بیاں میں ہے
کہیں لہروں میں، کہیں جنگل میں
کہیں پایا کسی کے آنچل میں
کہیں رستوں میں، کہیں سفروں میں
کہیں بھایا کسی کو گَردوں میں۔
کہیں نینوں میں، کہیں باہوں میں
کہیں جھلکا کسی کی آہوں میں
ہر سو عشق کو دیکھا ہے۔
ہر سو عشق کو پایا ہے۔
تم نے جانا کیا ہے عشق؟
توبہ روگ، بلا ہے عشق۔
!حق ہی کہا ہے میر نے، خاور
!کہیں بندہ، کہیں خدا ہے عشق
© All Rights Reserved
کوئی ذکر نہیں، کوئی بات نہیں
عنوان نہیں، مذکور نہیں
حالانکہ کوئی دستور نہیں
نہ زیرِ فلک، نہ زیرِ زمیں
ڈھونڈو نہ، تو کیہں بھی نہیں۔
لا محدود سی حد تک ہے۔
ازل سے لے کے ابد تک ہے۔
کہیں گردابِ صحرا، کہیں ہے نالہِ گریہ
کہیں ٹھہرا ہوا پانی، کہیں چلتا ہوا دریا۔
کہیں یہ خوش خصالوں میں۔
کہیں ماتم کے نالوں میں
کہیں ذات سے ہے، کہیں بات سے ہے
کہیں گھور اندھیری رات سے ہے۔
کہیں چاند میں ہے، کہیں بادل میں
کہیں چپ تنہا سے ساحل میں
کہیں شامل کسی زباں میں ہے
کہیں دیکھنے ملتا بیاں میں ہے
کہیں لہروں میں، کہیں جنگل میں
کہیں پایا کسی کے آنچل میں
کہیں رستوں میں، کہیں سفروں میں
کہیں بھایا کسی کو گَردوں میں۔
کہیں نینوں میں، کہیں باہوں میں
کہیں جھلکا کسی کی آہوں میں
ہر سو عشق کو دیکھا ہے۔
ہر سو عشق کو پایا ہے۔
تم نے جانا کیا ہے عشق؟
توبہ روگ، بلا ہے عشق۔
!حق ہی کہا ہے میر نے، خاور
!کہیں بندہ، کہیں خدا ہے عشق
© All Rights Reserved