...

7 views

شائد
بادل گرجا ہے بجلی چمکی ہے
آج پھر کسی کی دستار گری ہے
آج پھر سر کٹ کے کوئ گرا ہے
تبھی تو سرخ آندھی چلی ہے
کبھی موم تھا پتھر ہو چکا ہے
نقش وہی ہیں شخص وہی ہے
دھواں اٹھا ہے محل کے پیچھے
آج پھر کوئ جھونپڑی جلی ہے
شب کٹی ہے تلاش عدل میں
نہ کوئ نکلا نہ زنجیر ہلی ہے
لوگوں کا سمندر ہے شہر میں
مگر یہاں انسانوں کی کمی ہے
کسی کے لئیے آنسو نہیں گرتا
آنکھیں خشک ہیں بے حسی ہے
اس دور کو کیا نام دوں جاوید
چہار سو بس مادہ پرستی ہے



© javid