...

7 views

جُدائی مبارک
جو سچ کبھی خود سے نہ کہہ سکے
وہ سچ آج اُسکی زبان پر فائض ہے
کون جانے مُحبّت کسے راس آئی تھی
کون جانے بیوفائی کس پر جائز ہے

ہمیں تو تھی تمنّا گل و گلاب کی فقط
کب مانگا تھا تیری سلطنت کا تخت
کب آئے تھے میری جانب سے تقاضے
کیوں آئی مگر تیری جانب سے حجّت

ہم کتنے غلط تھے، اور تُو اب بھی قائل ہے
اپنی بات پر ڈٹے ہو ضد ہی ضد مائل ہے
جان لے چکے ہو اب کیا گوشت نوچ لوگے؟
اتنا غُصّہ جیسے اک تُو ہی ہوا گھائل ہے

مانتا ہوں! میری خواہش نہیں قابلِ تکمیل
تو کیا ہوا، میرے دامن میں خواہشیں تو ہیں
چلو تم نہیں دے سکتے دلاسالے، کوئی بات نہیں
میرے ادھورےپن میں تیری یادیں تو ہیں

بس اِک احسان کر دو! وہ سچ انجان کر دو
تُو مجھے مل سکتا نہیں! اس بات کو بے زبان کر دو
تیرا کُچھ نہیں جائیگا! میری سرکشی سے
اِک جھوٹ ہی صحیح! میری جان میں جان کر دو

میں ہوں اور میرے رب سے پھر میرا واسطہ
تُجھے مُجھ سے جاناں! ہو رہائی مبارک
میں بس اُسی سے مانگ لونگا تجھے
جب تلک اے جاناں! تُجھے جُدائی مبارک

© Ahmed Sahil