...

6 views

حالاتِ دُنیا
بے نام کردیا ہے فلاح فلاح کہتے کہتے
بُرا بن گیا خود کو اچھا کہتے کہتے
معصومیت کی خوشبؤں سے تر مرا وجود
کُچل دیا گیا میں بے ایماں کہتے کہتے
عقل و شعور کی راہوں پر ستمگری دیکھیے
دُھتکارا جا رہا ہے طالب بدگماں کہتے کہتے
کوششیں ہی زیرِ قوّت کوششوں پر ہی تانے
کُچھ کرنے بھی نہ دیا ناکارہ کہتے کہتے
کہیں آزاد ہوگیا تو کامیاب ہوجائیگا
کاٹ رہے پنکھ مجھے پروانہ کہتے کہتے
کس جرم کی سزا ملی اب تلک سوچتا ہوں
منصف بھی ٹال گیا کوئی بہانہ کہتے کہتے
مدد کو نہ آیا کوئی میں دیتا رہا صدائیں
ہر شخص سامنے سے گزرا ابھی آیا کہتے کہتے
گریبان سب کے داغدار تھے جو بھی ہم نے دیکھے
اوروں پر تھی اُنگلیاں کیا سے کیا کہتے کہتے
اُسکی کوئی شخصیت کیا ہی ہوگی جہاں میں
جیا جو سبھی کی ہاں میں ہاں کہتے کہتے
خُدا کی پناہ کیسے لوگوں کی ہے یہ دنیا
حیوان بس رہے ہیں خود کو انساں کہتے کہتے

© Ahmed Sahil