غزل
عدو کی سازشوں کے ہر شمار میں ہوں
مگر محبتوں کے کڑے حصار میں ہوں
بس اک وہ ہی نہیں مانتا میرے پیار کو
مبتلا میں جس شخص کے پیار میں ہوں
نہ کوئی بھی اترا میرے معیار پر کبھی
اور نہ میں خود اپنے ہی معیار میں ہوں
اتنا سا اعزاز کافی مجھ ناچیز کے لیے
میں اپنے یار کی فہرستِ یار میں ہوں
میرا ذکر کرتا ہے میرے شناساوں میں
یعنی میں شامل اس کی گفتار میں ہوں
زخم آ ہی جاتاہے جتنا بچ بچ کے چلوں
کہ میں دراصل اک راہِ پر خار میں ہوں
راز داروں نے پھیلایا ہے مجھے جگہ جگہ
اب اک خبر ہوں اور ہر اخبار میں ہوں
© ؔصائمہ الفت
Related Stories