...

8 views

سحرِ گفتگو

اتنی کھو جاتی ہوں اس کے سحرِ گفتگو میں
بس اس کی سنتی ہوں اپنی بات رہ جاتی ہے

وہ ناداں! سمجھتا نہیں اشاروں کی زباں ورنہ
میری جھکی جھکی نگاہ تو سب کہہ جاتی ہے

پھر لب مسکرانا دل دھڑکنا بھول جاتے ہیں جب
تمنا دل کی اشک بن کر آنکھ سے بہہ جاتی ہے

کبھی تو ٹوٹ جاتی ہے چھوٹی سی بات پر ہی
کبھی یہ صنفِ نازک بڑی بات بھی سہہ جاتی ہے

نہ تیرتی ہے نہ ہی ساحل پہ پہنچتی ہے کبھی
کشتی بحرِ عشق کی تو ہر آن زیرِ تہہ جاتی ہے

غلط فہمیوں کی دراڑیں پڑنے لگے جب کبھی
عمارت پیار کی پھر آہستہ آہستہ ڈھہہ جاتی ہے





©  ؔصائمہ الفت