...

7 views

کاش
ان حسرتوں کے استقبال کا کوئ میزبان ہوتا
کاش دل کے کونے میں ایک قبرستان ہوتا

نہ چراتا نظر کو کوئ یوں آفتاب کو دیکھ کر
زمین پر اگر سایۂ آسمان ہوتا

پھیلا دی غیروں میں ایک بات جو اسکو بتائ میں نے
کیا ہوتا اگر میرا رقیب میرا رازدان ہوتا

نہ تڑپتی کوئ تتلی حصولِ رسّ گلاب کی خاطر
کاش کانٹوں سے خالی میرا گلستان ہوتا

وہ محبت بھری نظر سے نہ دیکھتا جو ایک بار مجھ کو
نہ مجھے امید ہوتی , نہ مجھ کو کوئ گمان ہوتا

جب بندھ گئی امید تو ایک ہی گلہ رہا
کاش میری امیدوں کا وہ پاسبان ہوتا

نہ ان آرزوؤں کو تم پالتی ایماؔن!
نہ زمانہ تم سے آج پریشان ہوتا
ایمان شہزاد

© All Rights Reserved