کاش
ان حسرتوں کے استقبال کا کوئ میزبان ہوتا
کاش دل کے کونے میں ایک قبرستان ہوتا
نہ چراتا نظر کو کوئ یوں آفتاب کو دیکھ کر
زمین پر اگر سایۂ آسمان ہوتا
پھیلا دی غیروں میں ایک بات جو اسکو بتائ میں نے
کیا ہوتا اگر میرا رقیب میرا رازدان ہوتا
نہ تڑپتی کوئ تتلی حصولِ رسّ گلاب کی خاطر
کاش کانٹوں سے خالی میرا گلستان ہوتا
وہ محبت بھری نظر سے نہ دیکھتا جو ایک بار مجھ کو
نہ مجھے امید ہوتی , نہ مجھ کو کوئ گمان ہوتا
جب بندھ گئی امید تو ایک ہی گلہ رہا
کاش میری امیدوں کا وہ پاسبان ہوتا
نہ ان آرزوؤں کو تم پالتی ایماؔن!
نہ زمانہ تم سے آج پریشان ہوتا
ایمان شہزاد
© All Rights Reserved
کاش دل کے کونے میں ایک قبرستان ہوتا
نہ چراتا نظر کو کوئ یوں آفتاب کو دیکھ کر
زمین پر اگر سایۂ آسمان ہوتا
پھیلا دی غیروں میں ایک بات جو اسکو بتائ میں نے
کیا ہوتا اگر میرا رقیب میرا رازدان ہوتا
نہ تڑپتی کوئ تتلی حصولِ رسّ گلاب کی خاطر
کاش کانٹوں سے خالی میرا گلستان ہوتا
وہ محبت بھری نظر سے نہ دیکھتا جو ایک بار مجھ کو
نہ مجھے امید ہوتی , نہ مجھ کو کوئ گمان ہوتا
جب بندھ گئی امید تو ایک ہی گلہ رہا
کاش میری امیدوں کا وہ پاسبان ہوتا
نہ ان آرزوؤں کو تم پالتی ایماؔن!
نہ زمانہ تم سے آج پریشان ہوتا
ایمان شہزاد
© All Rights Reserved