...

6 views

آپبیتی
قسمت نے قلم چھینا اور قلم کی سیاہی
شاید نہیں جہاں میں اس سے بڑی تباہی

اپنے قلم سے اپنی تقدیر لکھ نہ پائے
اب عرض نیاز بن گیا بارود کا سپاہی

مصّلہ بھی اٹھ گیا اور ایمان ڈگمگایا
باقی اگر رہا ہے اک جام اور سراحی

منظور ہے نہ ہم کو یوں گھٹ کے سانس لینا
شاہین کا شاگرد ہوں نا ہی ہوں قفس کا راہی

اے برق توں سدا کو اتنا بلند نہ کرنا
للکارنا نہ تو بھی شاہین کی شہنشاہی

نالاں سکوت کے ہوتے ہیں پر اثر
ساحل نہ چاہتا ہے دریا کی مباہی

دل میں کسک ہے باقی اور آنکھ میں نمی بھی
میں خاک پیرہن میں ملبوس ہو الاہی

ہوتے ہیں چاک گریباں عظیم ہستیوں کے
تاریخ دے رہی ہے اس بات کی گواہی

پانے کی گر حوس ہو تو کچھ کھویا نہیں اسیرؔ
لاینگے رنگ ایک دن یہ عشق سحر گاہی