...

7 views

آنسوں
گرتے آنسو کا ہم حساب نہیں رکھتے
ہم نفرت کا کوئ نصاب نہیں رکھتے
جس صفحے پہ بنی ہو کرنِ امید
ہم ایسی کوئ کتاب نہیں رکھتے
تجھے ہوگا یقین بھی دنیا پہ
تجھے ہوگا یقین بھی لوگوں پہ
کرے بھری محفل میں رُسوا جو
ہم ایسا کوئ احباب نہیں رکھتے
ہم عادی موج منانے کہ
تم عادی دل کو جلانے کہ
تم بستے رہو اب غیروں میں
ہم عادی جام بنانے کہ
ہم بے پرواہ بے پردہ نہیں
سب کھل کے بیاں اب کرتا نہیں
تم مگن ہو دنیا کی رونگ میں
یہ عزت عیاں کوئ کردا نہیں
ہم شاعر ہیں کوئ عام نہیں
ہم روشنی ہیں کوئ شام نہیں
تم گامزن مستی کے رستوں پہ
یہ سچ ہے کوئ الزام نہیں۔

© Killer boy