غزل
مایوسیوں کی تیز آندھیوں میں
امیدوں کے چراغ جلائے میں نے
روز خوابوں کی کرچیاں ہوئیں
روز نئے خواب سجائے میں نے
رشتے ناطوں سے نبھاؤ کی خاطر
ہزاروں گلے شکوے بھلائے میں نے
نہ جانے کس کے کہنے پہ چاہنے پہ
اپنے ہی ہاتھوں زخم کھائے میں نے
خزاؤں میں مرجھا جانے کے بجائے
اپنے تیئں بہار کے دن لائے میں نے
اچھے وقتوں کی امید میں اکثر
برے دن بھی ہنس کے بِتائے میں نے
خوشی کے اجالے بکھیرنے کے لیے
غم کے اندھیرے بھی مٹائے میں نے
غم اپنے اپنوں سے چھپائے میں نے
جتن کیے بہانے بھی بنائے میں نے
حقائق سے بے خبر رکھا خود کو
راز خود سے بھی چھپائے میں نے
مخلص نہ ملا کوئی جہاں میں
دکھ در و دیوار کو سنائے میں نے
تقاضائے زندگی نے جب مجبور کیا
کام مشکل بھی کر دکھائے میں نے
© ؔصائمہ الفت
Related Stories