...

11 views

غزل

مایوسیوں کی تیز آندھیوں میں
امیدوں کے چراغ جلائے میں نے

روز خوابوں کی کرچیاں ہوئیں
روز نئے خواب سجائے میں نے

رشتے ناطوں سے نبھاؤ کی خاطر
ہزاروں گلے شکوے بھلائے میں نے

نہ جانے کس کے کہنے پہ چاہنے پہ
اپنے ہی ہاتھوں زخم کھائے میں نے

خزاؤں میں مرجھا جانے کے بجائے
اپنے تیئں بہار کے دن لائے میں نے

اچھے وقتوں کی امید میں اکثر
برے دن بھی ہنس کے بِتائے میں نے

خوشی کے اجالے بکھیرنے کے لیے
غم کے اندھیرے بھی مٹائے میں نے

غم اپنے اپنوں سے چھپائے میں نے
جتن کیے بہانے بھی بنائے میں نے

حقائق سے بے خبر رکھا خود کو
راز خود سے بھی چھپائے میں نے

مخلص نہ ملا کوئی جہاں میں
دکھ در و دیوار کو سنائے میں نے

تقاضائے زندگی نے جب مجبور کیا
کام مشکل بھی کر دکھائے میں نے


©  ؔصائمہ الفت