...

6 views

بھرم
سوکھ کے بکھر گۓ گلاب سارے
ٹوٹ کے بکھر گۓ خواب سارے
وقت نزاع وہ آ ہی گیا آخر
ٹل گۓ ذندگی کے عذاب سارے
داخل ہوۓ مکتب عشق میں تو
کھلتے گۓ عشق کے باب سارے
زرا سا وقت نے پلٹا کیا کھایا
بچھڑ گۓ دوست احباب سارے
آنکھیں کھلیں تو محسوس ہوا
چہروں سے ہٹنے لگے نقاب سارے
پاؤں چھلنی ہیں تپتا صحرا ہے
رستے ہو گۓ ہیں سراب سارے
تہی دامن اک تنہا مسافر رہ گیا
اور لٹ گۓ مال و اسباب سارے
دور سے دیکھ رہے ہیں تماشا میرا
خاموش ہیں شہر کے ارباب سارے
کھل جاۓ گا بھرم شرافت کا تری
جاوید اٹھیں گےجب حجاب سارے
© javid