...

13 views

حشر مانگتا رہا
کمی ہے لفظوں کی، میں اثر مانگتا رہا
راتوں میں جاگ جاگ کر سحر مانگتا رہا

زمانہ دیتا چلا گیا میں لیتا چلا گیا
اور پھر کیا ہی میں حَشَر مانگتا رہا

دامن میں سب آیا مگر دامن چاک میں
سب چھوڑ چھاڑ کر رفُّوں اسٹچر مانگتا رہا

اِک دانائی سے محروم تھا میں سمجھدار
جاہلوں سے نُسخہءِ گُزر سَفر مانگتا رہا

ساحل کو ڈُوبانا تھا بہرِ ساحل نے ہی
میں بے وجہ ہی غیروں سے قہر مانگتا رہا

اُسکے ہاتھوں زہر کے پیالے پیتے پیتے میں
پھر اُسی سے وسیلہءِ نجاتِ زہر مانگتا رہا

شکلِ بدبخت آئے آئینہ مت دکھایا کر مُجھے
یہ وہ بدنصیب ہے جس کی قدر مانگتا رہا

کس سے ہوگی شکایات جبکہ مجرم میں ہوں
نورِ ازل سامنے تھی، میں تاریکیِ بَشر مانگتا رہا

دینے والی ذات پاک تو منتظر ہی رہی
بدبخت ہے ساحل جو اِدھر اُدھر مانگتا رہا

© Ahmed Sahil