...

13 views

کہنے کو سب کچھ تھا میرے پاس
کہنے کو سب کچھ تھا میرے پاس
فضائیں تھیں میرے آغاز میں شامل
ہوائیں تھیں میری پرواز میں شامل
خوشبوئیں تھیں گلوں کی بند قباؤں میں
مُجھے عبور تھا حاصل سبھی اداؤں میں
آفتاب سے یاریاں تھیں اپنی
مہتاب سے دلداریاں تھیں اپنی
ستاروں سے کھیل یوں کھیلا کرتے تھے
بے ترتیبی میں ترتیب ڈھونڈھا کرتے تھے
شام ڈھلے محفل میں دھمال ہوا کرتا تھا
سحر میں نیند سے اُٹھنا بھی کمال ہوا کرتا تھا
چڑیا، چکور، تتلیاں مُجھے دل لبھاتی تھیں
جگنو کی چمچم کیا ہی اثر کر جاتی تھی
قدرت کے سبھی رنگ تھے میرے آشیانے میں
زمانے کے سبھی ڈھنگ تھے طبیعت کے کھانے میں
پھر یوں ہوا کہ مُجھ کو مل گیا تُو!
مل کے پل بھر میں ہی بدل گیا تُو!
بدلہ تُو تھا کہ بدلی دنیاداری میری
نہ سمجھا کبھی خودداری میری
اور کیا سے کیا نہ بدلہ کیسے بتلائیں تُم کو
کتنے چھپائیں زخم کتنے دکھائیں تُم کو
میرے دامن میں باقی کُچھ بچا ہی نہیں
ایک تُم نہ رہے تو کُچھ اور رہا بھی نہیں
ورنہ کہنے کو سب کچھ تھا میرے پاس

© Ahmed Sahil